افغان مسئلہ پر امریکہ کا دوہرا معیار، طالبان سے خفیہ روابط، پاکستان پر دبائو قائم
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) افغان معاملہ پر دبائو ڈالنے کیلئے ایک طرف امریکہ نے پاکستان کو سفارتی، فوجی اور معاشی دبائو کا نشانہ بنایا ہوا ہے تو دوسری جانب افغان طالبان کے ساتھ خود، بالواسطہ اور افغان حکومت کے براہ راست خفیہ روابط قائم کروائے گئے ہیں۔ افغانستان میں خونریزی بند کرنا، ان دونوں نوعیت کے خفیہ روابط کا مرکزی موضوع ہے لیکن جب پاکستان کہتا ہے افغان جنگ جیتنے کا خواب دیکھنے کے بجائے مسئلہ کا سیاسی حل نکالا جائے تو امریکہ کی انا مجروح ہو جاتی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، افغان طالبان کے ساتھ، پاکستان کے توسط سے بات کی جائے یا افغان حکومت اور خلیجی حلیفوں کے ذریعہ، پاکستان کے اس پر کوئی تحفظات نہیں تا ہم بات ضرور ہونی چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ، جب پاکستان ، چین، روس اور دیگر علاقائی ملک افغان مسئلہ کے سیاسی حل کی بات کرتے ہیں تو امریکہ فوجی مہم جوئی میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق بظاہر، افغان انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ معصوم ستنکزئی اور افغانستان کے مشیر سلامتی حنیف اتمار اپنے ہم وطن طالبان کے ساتھ خفیہ بات چیت میں مصروف ہیں، اصل فریق امریکہ اور طالبان ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی طاقت اور آئندہ عزائم جانچ رہے ہیں۔ اس ذریعہ کے مطابق مطابق حقانی، اسی طالبان تحریک کا حصہ ہیں جن سے امریکہ رابطے میں ہے، جلال الدین حقانی سے سراج الدین حقانی سب نے، ملا عمر سے لے کے ملا ہیبت اللہ تک، تمام طالبان امراء کی بیعت کی ہے لیکن امریکہ سیاسی مقاصد اور بطور خاص پاکستان پر دبائو ڈالنے کیلئے حقانی نیٹ ورک کے نام سے مشرقی افغانستان کے ان طالبان کو الگ دھڑا ظاہر کر کے، پاکستان کو ان کا سرپرست قرار دیتا ہے۔ ساری دنیا میں حقانی نیٹ کا چرچا ہے لیکن کوئی نہیں سوچتا کہ کیا وہ طالبان سے الگ کوئی طاقت ہیں؟۔