گیس ہیٹرسے آتشزدگی ، دل خراش ہلاکتوں میں اضافہ
احسان شوکت
azee_ahsan@hotmail.com
ہمارے معاشرے میں تعلیم اور شعور کی کمی جبکہ کسی چیز کے استعمال میں احتیاطی تدابیر اور ہدایات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے قیمتی انسانی ہلاکتوں کے دلخراش واقعات آئے روز کا معمول بن چکے ہیں۔آج کل سردیوں کے موسم میں گیس ہیٹر اور آتشزدگی کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں میںتشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میںآرہا ہے ۔جبکہ والدین کی انجانے میں ذراسی لاپرواہی اورغفلت کے باعث معصوم بچوں کی ہلاکتوں کے تکلیف دہ واقعات سے جہاں معصوم بچوں کو سخت تکلیف کا سامنا اور جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں، وہیں ایسے افسوسناک واقعات والدین کے لئے عمربھر کا روگ اور پچھتاوے کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اگر ہم ایسے واقعات پر روشنی ڈالیں تو کمرے میں گیس ہیٹر کی وجہ سے آکسیجن کی کمی سے دم گھٹنے ،گیس کی لوڈشیڈنگ کے بعد دوبارہ گیس کی واپسی پر کمرے میں گیس پھیلنے ،آگ چلا کر سونے سے آتشزدگی ،بچوں کو گھر میں بند کر کے کنڈی لگا کر ماں کی جانب سے بازار یا پھر باہر چلے جانے کی صورت میں شارٹ سرکٹ یا پھر کسی وجہ سے آگ لگنے، گھرمیں کسی مشروب کی بوتل میں پڑے کیمیکل،تیزاب یا دوائی کو پی لینے۔باتھ روم اور گھرمیں صفائی کے لئے رکھے کیمیکل کو پی لینے۔گھر میں پڑی ادویات کوچیز سمجھ کر کھانے۔حلق میں کھانے والی گولی،کسی پھل کی گٹھلی ،بوتل کاڈھکن،سکہ،کسی ٹوٹے کھلونے کا پرزہ پھنس جانے۔آنکھ میں کوئی نوکیلی چیز لگنے ،دیہاتوں میں گندم کا ذخیرہ کرنے والے پڑولے میں پھنس جانے۔گھر کی چھت یا بالکونی سے نیچے گرنے،بچوں کے گلی میں جانے سے ٹریفک حادثات کا شکار ہونے، شیر خوار اور کمسن بچوں کے پانی سے بھرے ٹب، بالٹی یا گہرے برتن میں گرنے اور ڈوبنے۔ چولہے پر گرم پانی کے لئے رکھے برتن میںگرنے۔کچن میں آگ کی زد میں آکر جھلسنے۔ بجلی کے سوئچ میں انگلی دینے یا ننگی تاروں سے ہاتھ چھونے سے کرنٹ لگنے۔ گھرکے باہر کھیلتے ہوئے کھلے مین ہول،نالے یا بارش کے پانی بھرے گڑھے وگہرے پلاٹ میں گر کر ڈوبنے سے آئے روز ہونے والی ہلاکتوں کے انتہائی افسوسناک واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ مزید برآں اکثردیکھنے میں آیاہے کہ کھیلتے ہوئے بچوں کو ہاتھ یاپائوں پرچوٹ لگنا، یاعموماََ دو چھوٹے بھائی کھیلتے ہوئے لڑپڑتے ہیں، ان کیلئے لازم ہے کہ والدین بچوں کو اکیلانہ چھوڑیں بلکہ ہروقت ان پرنظررکھیں۔بچوں میں یہ بھی دیکھاگیاہے کہ وہ کھیل کود میں چھوٹے چھوٹے کھلونوں کو منہ میں ڈال لیتے ہیں یاپھرکولڈ ڈرنکس کی بوتلوں کوتوڑکراُن کے ٹکڑوں کو منہ میں ڈال لیتے ہیں، اس صورت حال میں ضروری ہے کہ بچے کو الٹالٹاکرآرام سے وہ چیزنکالنے کی کوشش کرناچاہیے اگروہ ٹکڑانہ نکلے تو پھرمصنوعی تنفس(سی آر سی )کرناچاہیے اور اسی دوران امدادی ٹیموںکوکال کرنی چاہیے تاکہ متاثرہ بچے کو فوری طورپرہسپتال منتقل کیاجاسکے۔اسی طرح پیسے سکے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیے۔ گھروں میں بجلی کے سوئچ نیچے لگے ہوتے ہیں۔ ان پر موٹی ٹیپ لگا دیں تاکہ بچے انگلی نہ ڈال سکیں۔ دوائیاں ہمیشہ کسی اونچی جگہ رکھیں تاکہ بچوں کے ہاتھ نہ آئیں ۔ چلغوزے کا چھلگا، مونگ پھلی کا چھلکا حلق میں چلا جائے تو بڑا مسئلہ بن جاتا ہے ، خشک میوہ جات بچوں سے سنبھال کر رکھیے۔ انگور اور چھوٹی گٹھلی والے پھل چھوٹے بچوں کو کبھی نہ دیں۔ انگوراورچھوٹی گٹھلی سانس کی نالی کے برابر ہوتی ا ہے۔ ہمیشہ انگور کاٹ کر بچوں کو دیں۔ انگور پھنس جائے تو دم گھٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ بچوں کے کھلونے احتیاط سے خریدئیے۔ کھلونوں کے پیک پر لکھا ہوتا ہے، یہ اتنی عمر کے بچوں کیلئے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ اختیاط نہیں کی جاتی۔ لوڈو کی گوٹیاں اور دانہ منہ میں نہ ڈالیں یہ چھوٹی چھوٹی احتیاطیں ضرور کریں، تاکہ بچے محفوظ رہیں ۔نوکدار کھلونے نہ لیں ۔بچے آنکھوں اور منہ پر مارسکتے ہیں۔ اسی طرح چاقو چھریاں کانٹے وغیرہ بھی الماری میں رکھیے تاکہ بچے چھیڑ نہ سکیں۔ کھانا پکاتے وقت احتیاط کریئے بچے چولہے کے قریب نہ آئیں۔مشترکہ خاندانی نظام کے بہت فائدے تھے۔ اب یہ سارا سلسلہ ختم ہوگیا ہے ۔پہلے بڑے بزرگ، بچوں کا دھیان رکھتے تھے۔ اب تو ٹی وی ،کارٹون، موبائل گیمز بچوں کے ساتھی ہیں۔ ایسے کھلونے جن میں چھوٹے سیل ہوں بٹن سائز کے وہ نہ خریدئے۔ایسے سیل عموماً بچوں کی گھڑیوں میں ہوتے ہیں بچے نگل لیں تو مسئلہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کھیل میں پلاسٹک کے لفافے منہ پر نہ چڑھانے دیں۔ غباروں کی احتیاط کریں ،غبارے کا ٹکڑا پھٹ کر منہ میں چلا جائے تو مسئلہ ہوجاتا ہے ۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرنے سے والدین بہت بڑی مشکل اور مصیبت سے بچ سکتے ہیں۔چھوٹے بچوں کو اس بارے میں بھی ضرور بتائیے کہ انہوں نے کن چیزوں سے دوررہناہے۔اسی طرح چھٹیوں کے دنوں میں فیملیز بچوں کے ہمراہ پکنک منانے نہروں یاپھردریائوں کارخ کرتے ہیں اور وہاں تھوڑی سی غفلت کی وجہ سے بچے پھسل کرلہروں کالقمہ بن جاتے ہیں۔گھرمیں کوئی ایسی دوا رکھی ہوتی ہے جو زہریلی ہولیکن بچے ان دوائیوں کی بوتلوں سے کھیلتے کھیلتے منہ میں ڈال لیتے ہیں، حالانکہ ہربوتل کے لیبل پرلکھاہوتاہے کہ بچوں کی پہنچ سے دوررکھیں ، اس لئے احتیاط لازم ہے۔ بچوں میں وبائی بیماریوں کے پھیلنے کابہت خدشہ ہوتاہے ، جو زیادہ ترصاف پانی مہیا نہ ہونے کی وجہ سے پھیلتی ہیں تو والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو صاف پانی پلائیں۔ اس کے علاوہ ہم آئے روز ہم ٹیلی ویثرن میں خبریں اوراخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں کہ سانپ کاٹنے سے معصوم بچہ جاں بحق ہو گیا۔یاہم اس ایمرجنسی کو نہیں روک سکتے؟ یاپھرہم ان ایمرجنسیز سے کیسے نبردآزماہوسکتے ہیں؟ ضروری ہے کہ گھرکواچھی طرح صاف ستھرارکھیں، کاٹھ کباڑ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگائیں تاکہ گندگی پیداہی نہ ہواورسانپ یادیگرایسے زہریلے جانداروں سے بچاجاسکے، پھربھی اگرسانپ گھرمیں آجاتاہے تو سب سے پہلے امدادی ٹیموں کو کال کریں اورخود محفوظ جگہ پربیٹھ جائیں ۔احتیاط کے طورپرگھرمیں فرسٹ ایڈ باکس یا پھرڈاکٹرکے مشورے کے مطابق دوائیاںہونی چاہیں ۔ تاکہ حادثے و ایمرجنسیز کی صورت میں استعمال کی جاسکے۔بلاشبہ گھریلوایمرجنسیز میں دیکھنے میں آیاہے کہ یہ ایمرجنسیز زیادہ ترغفلت کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔چھوٹے بچوں کے معاملے میں احتیاط کریں ورنہ چھوٹی سے لاپرواہی بہت بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ نوے فیصد ان ایمرجنسیز کی وجہ بے احتیاطی ہوتاہے، والدین اور اہلخانہ کو مناسب تعلیم اور واجبی سی تربیت ہونے کی صورت میں ان ایمرجنسیزپرآسانی سے قابوپایاجاسکتاہے،کیونکہ والدین بچوں کو اکیلا چھوڑدیتے ہیں اور وہ کھیل کودمیں کوئی چیزمنہ میں ڈال لیتے ہیں یاپھرایک دوسرے سے لڑپڑتے ہیں اور ہاتھ ،پائوں یاکوئی دوسری ہڈی توڑبیٹھتے ہیں۔ عموماََ دیکھاگیاہے کہ بڑے ہوکران بچوں میں ہڈی وغیرہ ٹوٹنے کے سبب عیب رہتاہے، اسی لیے ضروری ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ پاکستان میں محفوظ معاشرے کے قیام کے علاوہ آپ عمر بھر کے پچھتاوے سے بچ سکیں ۔اس کے علاوہ خدار رات کو کمرے میں گیس کا ہیٹر بند کر کے سوئیں اور گیس کا پائپ لیکج ہو تو فورادرست کرائیں ۔پنجاب ایمرجنسی سروس (ریسکیو1122) کے ترجمان جام سجاد حسین نے اس سلسلہ میں بات جیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب ایمرجنسی سروس کے پراونشل مانیٹرنگ سیل کے مطابق دیکھنے میں آیاہے کہ روزمرہ کی ایمرجنسیز میں اضافہ ہوتاجارہاہے ،یہ ایمرجنسیز زیادہ تراس قدرعام ہوتی ہیں کہ اگرگھریلوافراد کو مناسب تربیت فراہم کی جائے تو وہ آسانی سے ان ایمرجنسیز سے نبردآزماہوسکتے ہیں، ان ایمرجنسیز کی بڑی وجہ ہماری غفلت ہے۔ روز مرہ کی ایمرجنسیز میں فوری طورایمرجنسی نمبر 1122پرکال کی جائے وہیں۔ مصنوعی تنفس کا عمل کرناچاہیے تاکہ جس قدرجلدی ہوسکے متاثرہ فرد کی سانس کی روانی بحال کی جاسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین کو مناسب تعلیم اور آگاہی ہوناچاہیے۔ مناسب تعلیم اور واجبی سی تربیت ہونے کی صورت میں ان ایمرجنسیزپرآسانی سے قابوپایاجاسکتاہے۔مشکل اور پیچیدہ صورتحال میں ڈاکٹرسے مشورہ کرناچاہیے۔ یوں تو پنجاب ایمرجنسی سروس (ریسکیو 1122)پنجاب کے تمام اضلاع اور اب تحصیل کی سطح پرایمرجنسیز کی صورت میں شہریوں کو احساسِ تحفظ فراہم کررہی ہے ، ساتھ ہی ساتھ پنجاب ایمرجنسی سروس نے کمیونٹی سیفٹی پروگرام کے ذریعے شہریوں ؛سکولز، کالجز ، یونیورسٹیز، صنعتوں ، فیکٹریوں اور دیگراداروں سے منسلک لوگوں اور حتی کہ فیملیز کو اِ ن ایمرجنسیز کی روک تھام کے حوالے سے بنیادی تعلیم فراہم کررہی ہے۔اسی طرح پنجا ڈی جی ریسکیو پنجاب ڈاکٹررضوان نصیر کے ویثرن کے مطابق پنجاب کے تمام اضلاع اور تحصیلوں میں کمیونٹی ایمرجنسی ریسپانس ٹیمز بنائی گی ہیں جو ریسکیورز او ر ریسکیو انسٹرکٹرزپرمشتمل ہوں گی اور کمیونٹی میں ہرسطح پرولنٹیرئیرز کوشامل کریں گی اور انہیں ایمرجنسیز سے نبردآزماہونے کی تربیت دی جائے گی، ان اقدام سے نہ صرف شہریوں میں ایمرجنسیز کے حوالے سے شعوراجاگرہوگابلکہ انہیں ایک مناسب پلیٹ فارم ملے گا۔جسے استعمال کرتے ہوئے وہ بھی آگے آئیں گے اوراپنے اپنے علاقوں کو ایمرجنسیز سے پاک کرنے میں ریسکیواہلکاروں کے شانہ بشانہ کام کرسکیں گے۔ تاکہ ہم سب ایک محفوط معاشرے کا حصہ بن سکیں۔