فیسکو کی غفلت،گاہک خاتون‘ دوکاندار زندہ جل گئے
احمد جمال نظامی
ہمارے سرکاری محکموں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے پراپیگنڈہ کے ذریعے سب اچھا ہے کا تاثر دینے کی عادت پڑ چکی ہے جس کے باعث اکثر اوقات بہت سارے ایسے سانحات بھی جنم لیتے ہیں جن میں کئی بے گناہ شہریوں کو اپنی زندگیوں تک سے ہاتھ دھونے پڑ جاتے ہیں۔ اس طرح کا ایک دلخراش واقعہ فیصل آباد کے علاقہ لال مل چوک فیکٹری ایریا میں فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی(فیسکو) کی غفلت کے باعث پیش آیا۔ فیسکو کی طرف سے کوئی موقع ایسا ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا جب فیسکو کی کارکردگی کو لائن لاسز اور مختلف زاویوں سے وطن عزیز میں سب سے بہتر الیکٹرک سپلائی کمپنی ثابت کرنے کے لئے استعمال نہ کیا جاتا ہو۔ لیکن اس کے باوجود فیسکو کے مختلف اہلکار جن میں لائن مین سرفہرست ہیں وہ اپنی زندگیوں سے ہاتھ بھی دھوتے ہیں اور سیفٹی کے سلسلے میں تمام اقدامات کا بھانڈا پھوٹتا رہتا ہے۔ فیسکو کی کارکردگی کے دعوے اپنی جگہ لیکن شہر کے اکثریتی علاقوں میں آج بھی لٹکی تاروں، خراب ٹرانسفارمروں اور ٹرانسفارمروں سے لٹکتی ننگی تاروں وغیرہ کی شکایات صارفین کی طرف سے جاری رہتی ہیں۔ اس سلسلہ میں فیسکو حکام اپنی بہتری اور کارکردگی کے ڈھول تو پیٹتے رہتے ہیں لیکن اگر صارفین شکایت کریں تو اس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ گزشتہ روز فیکٹری ایریا میں بھی اسی غفلت کے باعث ایک دلخراش واقعہ پیش آیا۔ فیسکو کا ٹرانسفارمر جس مقام پر یہ سانحہ رونما ہوا عرصہ دراز سے خراب چلا آ رہا تھا جس پر صارفین اور مقامی تاجروں کی طرف سے بار بار فیسکو کو شکایت کی جا رہی تھی کہ ٹرانسفارمر ٹھیک کیا جائے یا اسے تبدیل کریں۔ مگر فیسکو حکام نے اس بارے میں کوئی توجہ نہ دی اور بالاخر اس ٹرانسفارمر کو لگنے والی آگ اور دھماکے کے بعد 15دکانیں، 2گھر اور 20موٹرسائیکلیں جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئی۔ ریسکیو1122 کی فائر فائٹر ٹیم نے دو گھنٹے کی تگ و دو کے بعد آگ پر قابو پایا تو مارکیٹ میں آئی ایک گاہک خاتون فوزیہ زوجہ غلام غوث اور دکاندار رمضان کی جلی ہوئی نعشیں بھی برآمد ہوئیں جو اس واقعہ میں زندہ جل کر موت کی وادی میں چلے گئے جبکہ ایک دکاندار پچاس سالہ اصغر بھی اس واقعہ میں متاثر ہوا لیکن خوش قسمتی سے اس کی حالت ڈاکٹروں کے مطابق زیادہ تشویشناک نہیں۔ واقعہ کے فوری بعد فیکٹری ایریا کے تاجروں کی طرف سے فیسکو کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر سلمان غنی روایتی انداز میں موقع پر پہنچے اور انہوںنے انکوائری کمیٹی قائم کر دی مگر فیسکو حکام صرف اور صرف انکوائری کرنے کے راگ سے آگے نہیں بڑھ سکے جبکہ دوسری طرف کروڑوں روپے مالیت کا کپڑا جل کر خاکستر ہو گیا۔ دو افراد زندگی کی بازی ہار گئے لیکن اسے ہمارے سسٹم، حکومتی عدم توجہی، متعلقہ محکموں کی غفلت کا کرشمہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایسے واقعات کے باوجود کبھی بھی متعلقہ ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فیسکو کے متعلقہ سب ڈویژن آفس سے فوجداری مقدمات کی طرز پر تفتیش کی جاتی، اگر وہ ذمہ دار پائے جاتے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا اور اگر انہیں فیسکو ہیڈکوارٹر سے ٹرانسفارمر یا دیگر آلات وغیرہ کی فراہمی کی کمی کا سامنا تھا تو متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی جاتی۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا اور اپنی زندگی بھر کی کمائی آگ کی صورت میں راکھ کا ڈھیر بن جانے پر تاجر سراپا احتجاج ہیں اور جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سوگ میں مبتلا ہیں جبکہ ذمہ داران اب تک کسی گرفت میں نہیں آ سکے۔ گزشتہ دنوں فیصل آباد کے سب سے پوش علاقہ حبیب جالب روڈ پر ایک معروف کمپنی کی دکان کے ٹرائی روم میں خفیہ کیمرہ نصب کرنے کا سکینڈل بھی منظرعام پر آیا۔ اس دکان میں ایک خاتون ٹرائی روم میں گئی اور اس نے نصب کیمرے کو دیکھ کر اپنے موبائل سے اس کی تصویر کھینچی اور باہر آ کر دکان مینیجر کو شکایت کی جس پر خاتون سے موبائل چھین کر تصاویر موبائل سے ڈیلیٹ کر دی گئیں۔ اس دوران پولیس نے موقع پر پہنچ کر دکان مینیجر اور سویپر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اس واقعہ کے فوری بعد شہر بھر میں شدید احتجاج سامنے آیا کہ تمام ملبوسات کی دکانوں کے ٹرائی روم میں چیکنگ کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ انتظامیہ کو مجبور ہو کر حبیب جالب روڈ کی تمام دکانیں کی چیکنگ کرنی پڑی لیکن یہ سوال اپنی جگہ بدستور موجود رہا کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں کہ ٹرائی روم میں خفیہ کیمرہ لگا کر خواتین کی ویڈیوز بنائی جا رہی تھیں۔ ان ویڈیوز کو کس مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا یا پھر انہیں کسی بین الاقوامی ڈارک ویب کے لئے فروخت کیا جا رہا تھا۔ اس ضمن میں شہریوں کے ذہنوں میں کئی سوالات موجود ہیں مگر انتظامیہ، ایف آئی اے اور پولیس کے ذمہ داران تاحال اصل حقائق سامنے لانے میں ناکام ہیں۔ یہ سکینڈل اس بناء پر بھی شدید سنسنی کا باعث رہا کہ قصور میں 2015ء کے دوران بچوں سے زیادتی اور ویڈیو سکینڈل سامنے آیا۔ جھنگ سے ایک انجینئربچوں کی جنسی ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ بچوں کی ویڈیوز بنانے کے واقعات سرگودھا اور ملتان میں سامنے آئے۔ اوکاڑہ کے قریب اسی طرح کے ایک سکینڈل میں ملوث سکول ماسٹر کو گرفتار کیا گیا جبکہ ایک رپورٹ انسانی حقوق کی وفاقی وزارت کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی جس کے مطابق 2013ء سے 2017ء تک چار سالوں کے دوران ملک میں 17ہزار بچے جنسی درندگی کا شکار بنے۔ قومی اسمبلی میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی سزاؤں میں اضافے کا بل بھی گزشتہ روز متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ہے جس کے تحت بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ملزمان کی سزا کم از کم 14سال اور زیادہ سے زیادہ 20سال کر دی گئی ہے جبکہ جرمانہ 5لاکھ سے بڑھا کر 10لاکھ کر دیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں فحاشی و عریانی کے حوالے سے نت نئے سکینڈلز سامنے آ رہے ہیں جس پر عوام یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جنسی زیادتی کی سزاؤں کے حوالے سے کم از کم سزائے موت کی سزا کا بل منظور کیا جائے اور خفیہ کیمرے یا ویڈیوز وغیرہ کا گھناؤنا کاروبار کرنے والوں کے لئے کم از کم عمرقید کی سزا کا بل منظور کیا جائے، دیکھتے ہیں ہمارے قانون ساز اس ضمن میں کیا کرتے ہیں۔