• news
  • image

روزانہ 11 بچے جنسی تشدد کا شکار ، 76 فیصد دیہاتی !

شہزادہ خالد
پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی تشددکا شکار ہورہے ہیں۔زیادتی کا شکار ہونے والے 76 فیصد کا تعلق دیہی علاقوں جبکہ 24 فیصد کا تعلق شہروں سے ہے۔سرکاری غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سال 2017 کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میںسال 2016 ء کی نسبت 12 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ 2016 میں سال 2015 ء کی نسبت اضافہ 10 فیصد تھا۔ گذشتہ برس بچوں سے جنسی زیادتی سمیت اغوا، گمشدگی،قتل اور جبری شادیوں کے 4139 کیس رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے پنجاب میں گذشتہ برس کم سن بچے اور بچیوں سے زیادتی کے کیس 1316 تھے ، 43 بچوں کو قتل کر دیا گیا۔زیادتی کے ماہانہ واقعات 38 کے قریب بنتے ہیں۔دو برسوں کے دوران 1064 مقدمات میں سے 19 مقدمات میں ملوث صرف 11 ملزموں کو سزا ہو سکی۔دو برسوں کے دوران 10 سال سے کم عمر کے بچے بچیوں کی تعداد 252 ہے جن سے زیادتی ہوئی، 24 بچوں کو قتل کیا گیا۔عدالتوں سے 26 ملزمان عدم ثبوت کی بناء پر بری کئے گئے۔2008 ء میں 1200 اغوائ، 81 زیادتی کے مقدمات درج ہوئے۔ 2009 میں 1781 اغواء ، 79 زیادتی، 2010 ء میں 2108 اغواء ،161 زیادتی، 2011 ء میں 2527 ء اغوائ، 100 زیادتی، 2012 ء میں 2741 اغوائ، 101 زیادتی، 2013 میں 2507 اغواء ،99 زیادتی، 2014 میں 2311 اغواء ، 108 زیادتی، 2015 ء میں 2832 اغوائ، 161 زیادتی، 2016 میں 3051 اغوائ، 155 زیادتی، اور 2017 ء میں 3205 اغواء اور 118 زیادتی کے مقدمات رجسٹرڈ ہوئے۔یہ اعدادو شمار تھانوں ، عدالتوں اور قومی اور مقامی اخبارات کی رپورٹس پر اکٹھے کئے گئے ہیں۔لاہور کی عدالتوں میں 219 مقدمات ابھی زیر سماعت ہیں۔ایک ہزار سے زائد بچوں کے قتل کے ملزم گرفتار نہ ہو سکے ہیں۔بچوں کے خلاف ہونے والے بڑے جرائم میں اغوا کے 1455 کیس، ریپ کے 502 کیس، بچوں کے ساتھ بدفعلی کے 453 کیس، گینگ ریپ کے 271 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268 کیس جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں میں سے 100 سے زائد کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔غیر سرکاری نجی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کرنے والے مجرمان میں سے زیادہ تر کا تعلق بچوں کے رشتہ داروں، گھر کے اندر کے افراد اور واقفِ کاروں سے تھا۔بچوں سے زیادتی کرنے والے افراد 798اجنبی ، 589ا جنبی واقف کار، 76 رشتہ دار، 64 پڑوسی، 44 مولوی، 37 اساتذہ اور 28 پولیس والے ملوث پائے گئے ہیں۔پنجاب میں 2676، سندھ میں 987، بلوچستان میں 166، اسلام آباد میں 156، خیبر پختونخوا میں 141، آزادکشمیر میں 9، اور گلگت بلتستان سے 4 واقعات رپورٹ ہوئے۔اغواء ہونے والوں میں 11 سے 18 سال کے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ 16 سے 18 سال کی لڑکیوں کے اغوا کے واقعات میں اضافہ جبکہ لڑکوں کے اغوا کے واقعات میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔سال 2016 جنوری سے جون تک کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کئے جانے کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی گئی جس کے مطابق 1277 بچیاں جبکہ 850بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔رپورٹ کے مطابق 740 بچوں کو اغوا کیا گیا، 12 بچوں اور 82 بچیوں کو جنسی زیادتی کے مقصد سے اغوا کیا گیا۔ 246 بچوں کو بدفعلی جبکہ 276 بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ 134 بچے اجتماعی بدفعلی جبکہ 130 بچیاں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنیں۔ 16 بچوں کو بدفعلی کے بعد اور 13 بچیوں کو زیادتی کرکے قتل کردیا گیا۔ 9 بچے اجتماعی بدفعلی اور 9 بچیاں اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر دی گئیں۔ 56 بچوں کو بدفعلی جبکہ 137 بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ 9 بچوں جبکہ 5 بچیوں کو اغوا کے دوران زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کے دوران قتل کردیاگیا۔ 127 بچے گم ہوئے۔ 946 جان پہچانے والے افراد کو بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ رشتہ دار اور خاندان سے واقفیت رکھنے والے افراد 105 ، 18 خون رشتہ دار، 39 ہمسائے، 27 مذہبی رہنما، 19 استاد، 13 پولیس اہلکار جبکہ ڈاکٹر، جعلی پیر، دکاندار اور زمیندار بھی شامل تھے۔413جنسی افراد جبکہ 306اجنبی اور جان پہچان والے افراد نے بھی بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں میں 144 بچوں اور بچیوں کی عمریں 1 سال سے لے کر 5 سال تک، 419 بچوں اور بچیوں کی عمریں 6 سال سے لے کر 10 سال تک، 538 بچوں اور بچیوں کی عمریں 11 سال سے لے کر 15 سال تک، 209 بچوں اوربچیوں کی عمریں 16 سے لے کر 18 سال تک تھیں جبکہ 817بچوں اوربچیوں کی عمریں اخبارات نے رپورٹ نہیں کیں۔276 بچوں کو جان پہچان رکھنے والوں کے گھروں میں، 318 بچوں کو ان کے اپنے گھروں میں ، 279 بچوں اوربچیوں کو کھیت کھلیانوں، 30بچوں اوربچیوں کو حویلی، 16 بچوں اور بچیوں کو سکول میں، 9 بچوں کو جہاں بچے اور بچیاں مزدوری کرتے، 22بچوں کو دکان، 22 بچوں اور بچیوں کو مدرسہ جات میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔سال 2016 جنوری تا جون کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی سب سے زیادہ تعداد صوبہ پنجاب سے رپورٹ ہوئے۔گلوبل فورم لندن تھنک ٹینک کے چئیرمین امین خالد اکانومسٹ، لاہور بار کے سابق صدر تنویر چودھری، مدثر چودھری ایڈووکیٹ ہائی کورٹ، عارف ملہی، رئیس الدین ، مجتبیٰ چودھری، مشفق احمد خان ،سردار آصف احمد سیال ایڈووکیٹس نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چائیے کہ گھروں میں بطور ملازم کام کرنے والے بچوں کے حوالے سے متعلقہ بل کو منظور کروا کر اس پر عمل درآمد کرائے جبکہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل کو صوبائی اور قومی سطح پر نافذ کیا جائے۔ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے معلومات کو نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ پنجاب میں کل 1335 بچے، صوبہ سندھ 521 بچے، بلوچستان96 بچے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد 79 بچے، خیبر پختونخوا 88 بچے، گلگت بلتستان 2 بچے جبکہ آزاد کشمیر میں 6 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔سال 2016جنوری تا جون کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں سے 1584واقعات پولیس اسٹیشن میں رپورٹ ہوئے۔ 82 واقعات پولیس نے رپورٹ نہ کئے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن