’’غیر معمولی‘‘ سرگرمیاں: پارلیمنٹ کی بالادستی پر اپوزیشن حکومت کیساتھ کھڑی ہو گئی
پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی وجہ سے شروع ہوا لیکن قومی اسمبلی کا اجلاس اس لحاظ سے زور دار ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لئے ڈٹ گئی ہے حکومت اور اپوزیشن پارلیمنٹ کی بالا دستی پر ایک ’’صفحہ‘‘ پر نظر آرہی ہے جب کہ سینیٹ کے اجلاس میں پرائیویٹ ممبرز ڈے تھا۔ پیر کو میاں نواز شریف کی ہدایت پر مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چوہدری نثار علی خان نے شرکت تو نہ کی لیکن جب وزیر اعظم ایوان میں آئے تو وہ چوہدری نثار خان سے راز و نیاز کی باتیں کرتے رہے اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور ارکان کے بارے میں ہونے والے ممکنہ فیصلوں کے تناظر گفتگو کی وزیر اعظم کے تیور بدلے ہو ئے نظر آتے ہیں انہوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے تمام ریاستی اداروں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے اس وقت سیاسی حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ میاں نواز شریف کا سیاسی افق میں کردار ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے جس پر پارلیمنٹ کی طرف سے جواب دینا ناگزیر ہو گیا ہے۔ میاں رضا ربانی نے وزیر دفاع خرم دستگیر کے جواب کو نامکمل اور غیر تسلی بخش قرار دے دیا اور کہا ہے کہ جو باتیں آپ نے بتائی ہیں یہ ایوان پہلے سے جانتا ہے ایوان کو بتایا جائے کہ مزید بھیجے جانے والے فوجیوں کو سعودی عرب میں کہاں تعینات کیا جائے گا اور وہ وہاں کیا کریں گے ؟ وزیر اعظم کی طرف سے فوجی سعودی عرب بھیجنے کی منظوری کی اطلاع سینیٹ کو کیوں نہیں دی گئی؟ مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ہر آئینی ادارہ اپنی حدود میں کام کرے، منتخب نمائندوں کو چور کہا جاتا ہے، حکومتی فیصلوں کو رد کیا جاتا ہے جو اچھی روایت نہیں، پارلیمنٹ کی عزت اور وقار کو محفوظ رکھنا ہم سب پر فرض ہے۔ وزیر اعظم نے ججوں کے طرز عمل کو پارلیمنٹ اور ہر فورم پر زیر بحث لانے کی ہدایت کردی ہے ، پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے وزیراعظم کے اعلان کی بھرپور حمایت کردی۔ اجلاس میں میاں نواز شریف کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے صبر و عمل کی پالیسی کا غلط فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کو جان بوجھ کر ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ بعد ازاں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیا ہے جس میں انہوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی اور اداروں کی آئینی حدود پر بحث کی تجویز دی ،اپوزیشن نے حکومتی تجویز کی مشروط حمایت کر دی ہے ۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ ایوان کو کام کرنے ،تعیناتیوں کا اور فیصلے کرنے کا حق ہے یا نہیں ،آئین میں تمام اداروں کی حدود کا تعین موجود ہے ، ہمیں انہی حدود میں رہنا ہوگا ورنہ نقصان ملک کا ہوتا ہے۔اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے کہا کہ فرد واحد کیلئے کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی ،ملک اور ریاست کے لئے قانون سازی ہو گی،پارلیمنٹ کو سپریم سمجھا جاتا تو بیسویں آئینی ترمیم کی ضرورت نہ پڑتی،عوام کی بہتری کے لئے جو قانون سازی ہو سکے وہ کریں کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ ہمیں ایسا کرنے سے روکے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ہم سب نے حلف اٹھاتے ہوئے آئین کے دفاع کا عہد کیا ہوا ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں پی ٹی آئی رہنما شفقت محمود کو مائیک ملتے ساتھ ہی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سپیکر قومی اسمبلی ایوان سے اٹھ کر چلے گئے جس پر شفقت محمود نے کہا کہ جو ہماری بات ہی نہیں سنتے وہ ایوان کے تقدس کی بات کرتے ہیں جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ آپ جلد بات مکمل کریں جس پر شفقت محمود نے کہا کہ میں اپنی پوری بات کروں گا جتنا وقت دوستوں کو ملا ہے اتنا ہی لوں گا جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے مائیک مسلم لیگی رکن اسمبلی میاںعبدالمنان کو دیدیا جس کے بعد ایوان میں نعرے بازی شروع ہو گئی وزیر داخلہ احسن اقبال درمیان میں آئے اور میا ںمنان کو بٹھا کر مائیک شفقت محمود کو دینے کی سفارش کر دی جس کو ڈپٹی سپیکر نے مان لیا اور ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہو گئی۔
ڈائری