اللہ اور آئین کی دی طاقت کا بھرپور استعمال کرینگے: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ قانون بنائیں، آئین عدلیہ کو پارلیمنٹ کی قانون سازی پر نظر ثانی کا حق دیتا ہے اور کہا جارہا ہے عدلیہ مداخلت کررہی ہے، مقننہ کو آئین سے ہٹ کر کوئی اختیار حاصل نہیں، مقننہ بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کرسکتی، بار بار کہہ چکا ہو ں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، مگر پارلیمنٹ سے اوپر بھی ایک چیزہے اور وہ آئین ہے، ہم قطعاً کمزور نہیں اور قطعاً وضاحت نہیں دے رہے اور نہ گھبرائیں گے، اللہ نے اور آئین نے جو طاقت دی ہے اسکا بھرپور استعمال کریں گے لیکن نیک نیتی سے کریں گے، چیف جسٹس نے کہا عدلیہ کیلئے لیڈر شپ بہت مقدم ہے، ہم سمجھنے کیلئے سوال کررہے تھے کہ اگر کوئی ایسا شخص پارٹی لیڈر بن جائے تو کیا ہوگا؟ کیا تا ثر جائیگا، کسی کو ٹارگٹ نہیں کرتے، ہماری باہمی بات چیت یا ریمارکس کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے، چیف جسٹس نے کہا ہم کمزور نہیں ہیں، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ہم ریمارکس نہیں دیتے بلکہ سوال پوچھتے ہیں اور کیا سوال پوچھنا پارلیمنٹیرینز کی تضحیک ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اس ادارے کی مس رپورٹنگ ہو جائے تو بہت غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمیں انتظامیہ کے عمل اور بنیادی حقوق کو دیکھنا ہے کیونکہ عدالت قانون سازی کے جائزے کا اختیار رکھتی ہے، ہر ادارے کے لیے کچھ حدود مقرر ہیں، ایک کیس میں ریمارکس نہیں چند سوالات پوچھے، سوال اٹھانے پڑتے ہیں وضاحت دینے کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہتا تاہم میں کوئی وضاحت نہیں دے رہا اور نہ دینے کا پابند ہوں، اگر پوچھیں کہ فلاں شخص اہل ہے یا نہیں، کیا سوالات پوچھ کر ہم نے پارلیمنٹ یا پارلیمنٹرینز کی توہین کردی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا کمشن کی کئی سفارشات پر عمل درآمد ہوگیا ‘ صرف پیمرا کی حکومتی اثر سے آزادی کی سفارش پر عمل نہیں ہوا، قانون کے مطابق حکومت پیمرا کو ہدایت دے سکتی ہے جبکہ عدالت کو پالیسی کا جائزہ لینے کا مکمل اختیار ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ حکومت کے موقف سے ہٹ کر بیان دے رہے ہیں کیونکہ حکومت تو کہتی ہے عدالت کو کوئی اختیار نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ریگولائزڈ اداروں کو حکومتی اثر سے مکمل آزاد ہونا چاہیے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے ہدایت دینے والا اختیار کبھی استعمال نہیں کیا۔ اس موقع پر درخواست گزار نے کہا کہ حکومت ستمبر 2015 میں پیمرا کو آزاد کروانے کی یقین دہانی کروا چکی تھی لیکن اس پر عمل نہیں کیا جا سکا۔ وفاقی سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ پیمرا انتظامی طور پر مکمل آزاد ہے اور ہم گزشتہ یقین دہانی میں کچھ ترمیم چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ممبران کی تعیناتی اور حکومتی ہدایات کے اختیار سے پیمرا خود مختار نہیں لگتا جس پر سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ حکومت نے آج تک ایک بار ہی پیمرا کو ہدایت جاری کی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات ایک ہوں یا زیادہ، تعداد سے فرق نہیں پڑتا۔ سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے دوران حکومت نے پیمرا کو ایڈوائزری پر عمل نہ کرنے پر چینلز بند کرنے کی ہدایت کی تھی، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ چینلز کھلوانے کے لیے حکم جاری کرنے ہی والا تھا کہ رجسٹرار نے چئیرمین پیمرا سے بات کی اور انہوں نے بتایا کہ 2 بجے چینلز کھول دیے جائیں گے، چینلز بند کرنے کا کام پیمرا کا ہے حکومت کا نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پیمرا ممبران کو آزاد اور قابل ہونا چا ہیے اور ممبران کی عدم تعیناتی کی وجہ سے کئی ریگولیٹری ادارے متاثر ہو رہے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ کئی تعیناتیاں حکومت نے ایسی کیں جو قواعد کے مطابق نہیں، کئی تقرریوں میں عدالت کو اپنا اختیار استعمال کرنا پڑتا ہے،سیکریٹری اطلاعات کی جانب سے چئیر مین کی تعیناتی کے لیے اشتہار جاری کرنے کی بات پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اشتہار میں عمر کی حد 61 سال کیوں دی گئی، کیا کسی خاص فرد کے لئے یہ حد رکھی گئی ہے، سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ تعیناتی کی مدت چار سال ہے اور یٹائرمنٹ پر چیئرمین کی عمر 65 سال ہو گی،چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا آئیڈیل، آزاد ادارہ نہیں ہے۔حکومت پیمرا کو آزاد نہیں کرتی تو قانون کا جائزہ لیں گے،سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ پیمرا کو آزاد با ڈی بنا نے کے حوالے سے سفا رشات اور اس معاملے کو کابینہ میں لے جانا پڑے گا جس کے لیے عدالت دو ہفتے کا وقت دے ‘عدالت نے کہا کہ آپ کو دس دن کا وقت دے رہے ہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو بھی کابینہ میٹنگ میں ڈال دیں۔ ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا گزشتہ روز (پیر) کو بھی بات کی گئی عدالتیں قانون سازی کے عمل میں کیسے مداخلت کر سکتی ہیں؟ ریگولیٹری اتھارٹی پر حکومتی کمانڈ اور ڈکٹیشن نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں پیمرا کو آئیڈیل اور خودمختار باڈی بنانا ہے۔ ہمیں اداروں میں پروفیشنل لوگ تعینات کرنے چاہئیں جو ان کو بہتر انداز میں چلا سکیں۔ ہم سوال پوچھتے ہیں تو ہیڈ لائن بن جاتی ہے ‘ میڈیا میرے الفاظ کو سیاق وسباق سے ہٹ کر نشر نہ کرے اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ پوچھ لیں کہ کیا فلاں شخص اہل ہے؟ تو یہ کیا پارلیمنٹ کی توہین ہے؟ علاوہ ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب پولیس میں آئوٹ آف ٹرن پروموشن کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے کہاکہ پولیس پروموشن فیصلہ میں عدالتی فیصلوں سے ترقی پانے والوں کو تحفظ دیا گیا جس پر افسروں کے وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ آئی جی پنجاب نے ان افسروں کی ترقی بھی واپس لے لی جنہیں عدالتی تحفظ حاصل تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا اختیار ہے۔ عدالتی فیصلوں سے ترقی پانے والوں کا تحفظ واپس لے سکتے ہیں‘ لیکن جس بنیاد پر ان افسران کو ترقی ملی وہ بنیاد ختم ہوگئی جب بنیاد ختم ہوجائے تو اس پر ملی ترقی کیسے برقرار رہے گی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ تنزلی سے پولیس افسروں کا مورال ڈائون ہوگا۔ دریں اثناء سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں غیر قانونی شادی ہالز اور مارکیز سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا کہ اگر سی ڈی اے کی طرف سے بنائے گئے قواعد کا اطلاق نہ ہوا تو ذمہ داری چیئرمین پر عائد کی جائے گی۔ علاوہ ازیں پنجاب پولیس آوٹ آف ٹرن پروموشن کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ ترقی پانے والوں کاتحفظ دینے والے عدالتی فیصلوں پرنظرثانی کااختیاررکھتے ہیں جس بنیاد پرافسران کوترقی ملی وہ بنیاد ختم ہوگئی توترقی کیسے برقراررہے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس پروموشن فیصلہ میں عدالتی فیصلوں سے ترقی پانے والوں کوتحفظ دیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلوں سے ترقی پانے والوں کاتحفظ واپس لے سکتے ہیں ،فیصلے پرنظرثانی کرنے کااختیارہے جس بنیاد پرمتعلقہ افسران کوترقی ملی وہ بنیاد ختم ہوگئی تو ترقی کیسے برقرررہیگی ، خواجہ حارث نے تنزلی پانے والی پولیس افسران کا مورال ڈاؤن ہونے کا بتایا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں شیخ رشید احمد نے مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال و پوسٹ گریجویٹ کالج کو فعال کرنے کے لیئے درخواست دائر کر دی ہے۔ علاوہ ازیںسپریم کورٹ میں غیر قانونی شادی ہالز اور مارکیز سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں سی ڈی اے کی جانب سے شادی ہالز کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کا مجوزہ مسودہ جمع کرادیا گیا‘سماعت کے دوران چیف جسٹس نے واضح کیا ہے کہ بائی لاز کااطلاق نہ ہواتو ذمہ داری چیئرمین سی ڈی اے پر ہو گی۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں شاہ زیب قتل کیس کے مجرم شاہ رخ جتوئی نے عدالتی فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کردی ، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مقدمہ میں انسداد دہشتگردی قانون کی دفعات بحال کرنا اور گرفتاری کا حکم دینا ، رائج فوجداری قوانین کے اصولوں کے منافی ہے۔