حافظ سعید کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک
دی نیشن کے صفحہ اول پر طاہر نیاز کی خصوصی رپورٹ پڑھ کر میں سمجھ گیا کہ وہ لمحہ آن پہنچا۔
امریکہ نے دھمکی دی تھی کہ وہ جب چاہے گا، جہاں چاہے گا ، پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کرے گا۔
پاکستان نے منت سماجت کی کہ حضور، آپ کاہے کو تکلیف فرمائیں گے ، ہمیں حکم کریں ، نشانے کی نشاندہی کریں اور ہم خود فدویانہ ایکشن کریں گے، اس طرح پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر بھی حرف نہیں آئے گاا ور امریکہ کامقصد بھی پورا ہو جائے گا۔
امریکہ نے پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک کے لئے یو این او کا چینل اختیار کیا ہے۔ صدر پاکستان نے گزشتہ جمعہ کی شب کے اندھیرے میں ا یک آرڈیننس جاری کیا۔ آرڈیننس تب جاری ہوتے ہیںجب پارلیمنٹ سیشن میں نہ ہو۔ پیر کو سینٹ اور اور قومی سمبلی دونوں کے اجلاس ہوئے۔ سینٹ کے اجلا س کی کاروائی میںنے پی ٹی وی نیشنل پر براہ راست دیکھی، ایک سینیٹر نے اعتراض کیا کہ صدر نے پارلیمنٹ کی بالادستی کا لحاظ نہیں کیا اور جلد بازی میں ایک ا ٓرڈی ننس جاری کر دیا ہے، چیئرمین نے سخت ریمارکس دیئے کہ ایک طرف حکومت پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے، دوسری طرف وہ خود اس کی بالادستی کو روند رہی ہے،۔ صدر کو یہ آرڈیننس جاری نہیں کرنا چاہئے تھا، اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا تاکہ بحث کے بعد اس پر کوئی فیصلہ کیا جاتا۔
آرڈیننس جاری کرنے کی جلدی بلا وجہ نہ تھی۔ پیرس میں کوئی اجلاس ہونے ولا ہے جس میں پاکستان کو دہشت گرد ملکوں کی واچ لسٹ میں شامل کئے جانے کے لئے ایک قرارداد پر غور ہو گا۔ صدر پاکستان نے مناسب سمجھا کہ ایک آرڈیننس جاری کر کے مجوزہ قرارداد کے اثرات بد سے بچا جائے۔ اس آرڈی ننس میں لکھا گیا ہے کہ یو این او آئندہ جس تنظیم یا شخص کو دہشت گرد قراردے گی ، پاکستان میں خود بخود اسے دہشت گرد سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ یہی سلوک ہو گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کی عدلیہ کے ایک فیصلے میں حکومت کو فلاح انسانیت اور جماعت الدعوہ کے خلاف کارروائی سے روک دیا گیا تھا ۔ اس لحاظ سے حکومت توہین عدالت کی مرتکب ہوئی ہے ۔ مگر اسے عدلیہ کی کوئی پروا نہیں ، جتنی پروا ہے بھی، وہ حکومتی بیانات اور آج کی قومی اسمبلی کے اجلاس کی کاروائی سے اظہر من الشمس ہے۔
صدر کے آرڈیننس نے حافظ سعید پر وہ سرجیکل سٹرائیک کر دی جس کے لئے ممبئی سانحے کے بعد ایک کوشش بھارت نے کی تھی مگر پاک فضائیہ کے طیاروں نے دن رات فضا میں پرواز کر کے بھارت کو اس کے ارادوں کی تکمیل سے باز رکھا تھا، اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ پاک فضائیہ کی یہ پروازیں حافظ سعید کے بجائے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوراٹر کی حفاظت کے لئے تھیں،کیونکہ ممبئی سانحہ کے بعد بھارت نے بڑی رعونت سے حافظ سعید کے بجائے آئی ایس آئی کے سربراہ کو طلب کیا تھا ، اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارت کی فرمائش فوری طور پر پوری کرنے کا حکم بھی دیا ، وہ تو قوم آڑے آ گئی کہ بھارت کون ہوتا ہے ہمارے آئی ایس آئی چیف کوطلب کرنے والا، اس طرح بھارت کی یہ کوشش بھی ناکام رہی۔
بھارت نے پاکستانی قوم کے مزاج کو سمجھتے ہوئے امریکہ پر کام کیا، اس کا یہ جادو چل گیااور امریکہ نے بھارت کی زبان بولنا شروع کر دی اوراپنے کہے پر عمل کروانے کے لئے یو این او کا سہارا لیا۔
بھارت اور امریکہ اپنی نئی کوشش میں کامیاب ہو گئے۔
اب حافظ سعید کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے ، ان کے اکاﺅنٹس منجمد کر دیئے گئے ہیں ان کی ڈسپنسریوں ، ہسپتالوں اورا سکولوں اور ایمبولنس گاڑیوں کو سرکاری ملکیت میں لے لیا گیا ، بھٹو دور کے بعد نجی ا داروں کوسرکاری تحویل میں لئے جانے کی یہ سب سے بڑی کارروائی ہے۔
نہ بھٹو کی سرکاری انتظامیہ ان اداروں کو چلا پائی۔ ان میں سے اتفاق فونڈری تو کھنڈر میں تبدیل ہو گئی۔ اب موجو دہ حکومت کی مشینری جو اپنے اسکولوں ، ہسپتالوںا ور ڈسپنسریوں کو چلانے کی اہل نہیں وہ سینکڑوں مزید اداروں کو کیسے سنبھال پائے گی۔جواب ہر شخص کومعلوم ہے مگر چونکہ حکومت وقت کو جلدی پڑی ہوئی ہے کہ کسی طرح اقوام متحدہ ، امریکہ اور بھارت کو مطمئن کر دے، اس لئے حافظ سعید اور ان کے اداروں کے خلاف دھڑا دھڑ اقدامات جاری کئے جا رہے ہیں۔
حکومت اس جلد بازی میں بھول ہی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی لسٹ میں اکیلے حافظ سعید کا ذکر نہیں، دو درجن سے زیاد تنظیموں اور شخصیات کا ذکر ہے اورا سے ان سب کے خلاف پہاڑ جیسی کارروائی کرنی ہے، کسی بھی ملک میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف ا س قدر بڑا آپریشن ا ٓج تک کہیں اور نہیں کیا گیا۔ اخوان المسلمون کے خلاف مصر کے صدرناصر اور صدر السیسی نے بھی نہیں کیا۔ پوری دنیا میں امریکی ا ور نیٹو افواج نے بھی دہشت گردوں کے خلاف بھی نہیں کیا۔ مگر پاکستان کی حکومت تن من دھن کے ساتھ ایکشن جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ بھی صرف حافظ سعید کے خلاف، جس ے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو صرف حافظ سعید سے بغض ہے ۔ باقی تنظیموں یا شخصیات سے اسے کوئی سرو کار نہیں جبکہ امریکہ کو سب سے بڑی پرخاش حقانی نیٹ ورک سے ہے ، سو حکومت حافظ سعید کو پابند سلاسل بھی کر لے ، جب تک امریکہ کو حقانی نیٹ ورک بارے تسلی نہیں ہوتی، وہ دباﺅ برقرار رکھے گا۔
پچھلے دنوں ٹرمپ نے اول فول باتیں کیں اور امداد روکنے کی دھمکی دی تو حکومتی کارندوںنے کہا کہ بسم اللہ ، بند کر دیں یہ امداد اس رزق سے موت اچھی جس سے پرواز میں کوتاہی آئے۔ یہ سبق ہمیں ایوب خاں ایک کتاب لکھ کرپڑھا گئے تھے۔ ویسے بھٹو بھی پیجھے نہ رہے ، انہوںنے بھی راجہ بازار پنڈی میں ایک امریکی وزیر کا خط پھاڑا تھا۔ میرے دوست سینیٹر فرحت اللہ بابر ذرا تحقیق فرمائیں کہ بھٹو نے یہ خط کیوں پھاڑا تھا، ظاہر ہے بھٹو کو امریکی دباﺅ منظور نہ تھا۔ لیکن آج ہم امریکہ سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ہر وہ کارروائی کرنے کو تیار ہیں جس سے امریکہ خوش ہو سکے اور ساتھ ہی بھارت میں بھی شادیانے بجیں۔
بنگلہ دیش نے پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو غدار کہہ کر پھانسیاں دی ہیں ، ہم حافظ سعید کو کس جرم کی سزا دے رہے ہیں ۔ کیا سینیٹ کے اجلاس میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے ایک سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا تھا کہ حافظ سعید کے خلاف کوئی مواد نہیں ، وہ فلاحی کام کرتے ہیں اور کشمیر کاز کی حمایت کرتے ہیں ، یہ حمایت ہر پاکستانی اور حریت پسند کو کرنی چاہئے ۔ یہی گواہی جیو ٹی وی پر طلعت حسین کے ساتھ انٹریو میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دی ، انہوںنے بھی صاف لفظوںمیں کہا کہ حافظ سعید کے خلاف حکومت کے پا س کوئی مواد نہیں ہے۔
تو اب صدارتی آرڈی ننس کس بنیاد پر جاری کیا گیا ہے، وہ کونسے جرائم ہیں جو حافظ سعید نے آرمی چیف اور وزیر اعظم کی گواہی کے بعد کئے ہیں۔
یہ حکومت پیرس اجلاس سے سہمی ہوئی ہے کہ کہیں دہشت گردی کی واچ لسٹ میں نہ آ جائیں۔ کہیں پاکستان کا معاشی مقاطع نہ ہو جائے۔ بھلا ہمسائے میں ایرانیوں سے ہی پوچھ لیا جائے کہ تمہارا مقاطعہ ہوا تھاتو کیا تم مر گئے تھے۔ مٹ گئے تھے، معدوم ہو گئے تھے۔ اقوا م متحدہ کی پابندیوں کا کئی ملکوںنے سامنا کیا۔ چند لاکھ فلسطینیوںنے کیا اور آج چند لاکھ کشمیری بھی کر رہے ہیں مگر بیس کروڑ کی پاکستانی قوم کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ حقیقت میں قوم کی ٹانگیں نہیں کانپ رہیں ، اس اشرافیہ پر کپکپی طاری ہے جو ڈالروں سے پیٹ بھرتی ہے اور جسے فاقے نظر آ رہے ہیں، قوم تو پہلے ہی فاقے کاٹ رہی ہے۔
حافظ سعید وطن پرست ہے۔اسے قربان کیا جا رہا ہے، بھٹو کو بھی قربان کیا گیا مگر اس کی پارٹی آج بھی کہتی ہے کہ تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔ تو کیا ہر گھر سے حافظ سعید نہیں نکلے گا۔حافظ سعید اور اس کے اداروں کو بیڑیاں پہنا لو۔ مگر اس کی سوچ کو کیسے بیڑیاں پہناﺅ گے ، ذرا سوچ کے، ذرا سمجھ کے۔کچھ شرم بھی ہوتی ہے ، کچھ حیا بھی ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭