نیب کا ڈر ہے نہ ریکارڈ دینے سے انکار‘ مشرف نے وزارت عظمی کی پیشکش کی تھی : شہبازشریف
لاہور (خصوصی رپورٹر) پنجاب حکومت کے ادارے پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی اور نادرا کے مابین معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ معاہدے کی رو سے نادرا کے 3700 ای سہولت مراکز پر بھی اراضی کی فردملکیت کے حصول کی خدمات فراہم کی جائیں گی۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی اور نادرا کے مابین معاہدہ خوش آئند ہے اور اس سے صوبے کے ساڑھے پانچ کروڑ کسانوں کو سہولت ملے گی۔ ہم نے 1997ء میں لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا آغاز کیا، پھر 12اکتوبر1999ء ملک میں جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔ دور آمریت میں اس اہم منصوبے کو پس پشت ڈال دیا گیا اور اس پر کوئی کام نہ ہوا بلکہ اس منصوبے کے سافٹ ویئر کے حصول کیلئے مختص وسائل کرپشن کی نذر ہوگئے۔ متعلقہ فورمز نے اگر اس کرپشن کا نوٹس نہیں لیا تو ان فورمز کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ 2008ء میں ہماری دوبارہ حکومت آئی تو ہم نے اس منصوبے کو تیزرفتاری سے آگے بڑھایا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے بڑی حد تک 150 سال سے جاری پٹوار کلچرکا جنازہ نکل گیا ہے۔ نئے نظام میں جب ہمیں دوبارہ پٹوار کلچر کا شائبہ ہوا تو ہم نے اسے آہنی ہاتوں کیساتھ کچلا۔ اس نئے نظام میں رشوت دے کر بھرتی ہونیوالے ساڑھے چار سو ملازمین کو گھر بھیجا اور رشوت لیکر بھرتی کے ذمہ داروں کو جیل میں ڈالا۔ باتوں کو چھپانے کی بجائے حقائق سامنے لانے چاہئیں۔ اسی طرح مجھے ایک خط ملا جس میں گلہ کیا گیا کہ میں نے قوم سے پٹوار کلچر کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا لیکن نئے نظام میں نائب تحصیلدار دوبارہ شامل ہوگئے ہیں، جب میں نے کھوج لگایا تو خط میں لکھی ہوئی بات درست نکلی، تقریباً 55نائب تحصیلدار اس نئے نظام میں شامل ہوگئے تھے جس پر میں نے سخت ایکشن لیا۔ دنیا میں سو فیصد کرپشن کہیں ختم نہیں ہوتی، ڈنمارک جیسے شفاف ملک میں بھی کرپشن ہوتی ہے تاہم انہوں نے موثر اقدامات کے باعث کرپشن کو انتہائی کم کر دیا ہے۔ ہم نے بھی صوبے میں کرپشن کیخلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے اوراب کرپشن کی وہ شکایات نہیں مل رہی جو اس نظام کے بارے میں 6 ماہ پہلے ملتی تھیں۔ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی میں انٹیلی جنس ونگ بھی بنایاگیاہے۔ پنجاب کی تمام تحصیلوں میں اراضی ریکارڈ سینٹرز عوام کو خدمات فراہم کررہے ہیں۔ ان مراکز میں لوگوں کے رش اورلمبی قطاروں کے باعث مختلف تجاویز اوراقدامات کا جائزہ لیاگیا۔نادرا کیساتھ طے پانے والا معاہدہ اسی سلسلے کی کڑی ہے اوراب نادرا کے 3700ای سہولت مراکز میں فرد کے حصول کی خدمات فراہم کی جائیںگی اوریہ عمل آئندہ دو ہفتوں میں شروع ہوجائے گا۔ پنجاب حکومت سندھ،بلوچستان، خیبر پی کے،گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی حکومتوں کو بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کیلئے تکنیکی معاونت فراہم کررہی ہے۔ ہم نے اس کرپشن زدہ فرسودہ نظام کا خاتمہ کردیا ہے اوراب کسان اگربینک سے قرضہ لینا چاہیے تو فرد کے ذریعے آسانی سے لے سکتا ہے۔پنجاب حکومت نے کسانوں کو 7فیصد شرح کی بجائے بلاسود قرضے فراہم کیے ہیں۔ شہباز شریف نے میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دیہی علاقوں کے بعد شہری علاقوں کی اراضی کو کمپیوٹرائزیشن کرنے کیلئے ہدایات جاری کردی گئی ہیں،اس پر بھی تیزی سے کام کیا جائے گا۔ نیب کی جا نب سے پنجاب کے اداروں سے ریکارڈطلب کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ تاثر بے بنیاد ہے کہ پنجاب کے ادارے نیب کو مطلوبہ ریکارڈ فراہم نہیں کررہے۔ چیئرمین نیب کا اس حوالے سے جس دن بیان سامنے آیا تھا، میں نے اگلے روز اجلاس بلا کر تمام اداروں کوواضح ہدایات دیں کہ قانون کے مطابق نیب کو تمام مطلوبہ ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ ہم نے شفاف طریقے سے صوبے کے عوام کی خدمت کی ہے اس لئے ہمیں کسی بات کا ڈر نہیںہونا چاہیے۔اگرخدانخواستہ کہیں کرپشن ہوئی ہے تو ہمیں کسی کا تحفظ نہیں کرنابلکہ اس قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔ ہم نے خود احتسابی کی عمدہ مثالیں قائم کی ہے۔ دوسری جانب خیبر پی کے کی حکومت نے بڑی دھوم سے احتساب کا ادارہ قائم کیاجو بند پڑا ہے اوروہاں کرپشن کی کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں،لیکن ہمیں اپنے خود احتسابی کے نظام پر فخر ہے۔پنجاب میں خود احتسابی کا موثر نظام بنایاگیا ہے کہ اب کوئی ’’ماموں ‘‘نہیں بنا سکے گا۔ کرپشن اوربدعنوانی پکڑنا اورکرپٹ عناصر کو قانون کے دائرے میں لانا نیب کی ذمہ داری ہے اوراسے اپنا کردارادا کرنا ہے۔ پنجاب میں نیب متحرک ہے اوردیگر صوبوں میں متحر ک نہیں تو یہ کس کی ذمہ داری ہے۔ احتساب بلاامتیازاورانصاف پرمبنی ہوناچاہیے۔ ہمیںاسی کلچر کو فروغ دینا ہے۔ اداروں کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ تمام اداروں کو آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہیں۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اوراس میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہے۔پارلیمنٹ کے اختیارات آئین میں واضح ہیں۔ ایگزیکٹو کو اپنا فرض ادا کرنا ہے اورعدلیہ کو اپنا کردارادا کرنا ہے۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اوراسے اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ اداروں میں اگر کہیں کالی بھیڑیں موجود ہیں تو ان کا محاسبہ کرنااداروں کی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ میں اگر کہیں نچلی سطح پر کرپشن ہے تو اس کا عدلیہ کو جائزہ لینا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ گنے کے کاشتکاروں کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہر ضروری اقدام اٹھایا ہے۔ گنے کے کاشتکاروں کا استحصال کرنیوالے شوگر مل مالک کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے لیکن وہ کسی دوسرے صوبے میں بھاگ گیا ہے، کسانوں سے زیادتی کرنیوالے اس شوگر مل مالک کو قانون کے کٹہرے میں لائیںگے۔زینب قتل کیس کے حوالے سے قاتل کو سرعام پھانسی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اس سلسلے میں عدالت عظمی اورعدالت عالیہ سے رہنمائی کی استدعا کی گئی ہے۔ پرویز مشرف کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کی تعریف کے بارے میں کیے جانے والے سوال پر شہبازشریف نے کہا کہ میںنے بڑے عرصے تک اپنے دل میں یہ راز چھپائے رکھا ہے اوراسے کبھی بھی ظاہر نہیں کیا، تاہم حالیہ ہفتوںمیں مشرف کے ایک انٹرویو کے بعد آج پہلی بار یہ راز ظاہر کررہا ہوں۔ مشرف نے اپنے انٹرویو میں اینکر کے سوال کے جواب میں کہا کہ انہوںنے عمران یا چوہدری نثار کو وزارت عظمی کی پیشکش نہیں کی،تاہم جب میرے بارے میں ان سے سوال پوچھا گیا تو انہوںنے کہا کہ میری خواہش ہے کہ شہبازشریف وزیراعظم ہوتے۔انہوںنے کہاکہ چوہدری نثار علی خان اور میری ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں لیکن جب وزارت عظمی کی بات ہوئی تو چوہدری نثار اس ملاقات میں موجود نہیں تھے اور یہ بات درست ہے کہ پرویز مشرف نے مجھے وزارت عظمی کی پیش کش کی تھی لیکن میں ان پرواضح کردیا تھا کہ جمہوری نظام میں ایسا نہیں ہوتا،پارلیمنٹ موجود ہے اورجمہوری نظام ایسے نہیں چلتے۔میںنے انہیں یہ بھی کہا کہ اگر آپ کو کوئی گلہ ہے تو میں نوازشریف سے آپ کی ملاقات کرادیتا ہوںاوراس ضمن میں اپنا کردارادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔ مشرف نے کہا کہ ٹھیک ہے میں سری لنکا جارہا ہوں،واپسی پروزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کرادیںاوراس ضمن میں اپنے ضروری پوائنٹس بھی تیارکر لوں گا۔ ترقی کا راز اس بات میںمضمر ہے کہ سیاسی اورعسکری قیادت کی معاملات میں ہم آہنگی ہونے چاہیے، اسی لئے میں ہمیشہ اسلام آباد اورراولپنڈی کے مابین موثر رابطے کا حامی رہا ہوں۔ میں نے انہیں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اس بات کو سامنے رکھیں کہ جو شخص اپنی پارٹی سے وفادار نہیں وہ دوسرے سے کس طرح وفاداری نبھاسکتا ہے۔