• news

نوازشریف پارٹی صدارت کیلئے بھی نااہل‘ سینٹ نامزدگیوں سمیت تمام فیصلے کالعدم

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017ءکے تحت نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کے حوالے سے کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دے دےا۔ عدالت نے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017 کی ترمیم شدہ شق203 کو کالعدم قرار دےا ہے۔ مختصر فیصلہ چیف جسٹس مےاں ثاقب نثار نے تحریر کےا ہے جو 5 صفحات پر مشتمل تھا فیصلہ میں سپریم کورٹ نے نااہلی سے لے کر اب تک کئے گئے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دےا ہے، فیصلے میں الیکشن کمشن کو فوری طور پر نواز شریف کا بطور پارٹی سربراہ نام ختم کر نے کی ہدایت کی گئی، نوٹیفکیشن کی کاپےاں مسلم لیگ ن ودیگر کو فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی گئی، فیصلہ میں کہا گےا ہے کہ پارٹی سربراہ کے لئے 62/63 پر پورا اترنا ضروری ہے، جبکہ نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ 28 جولائی 2017ءکو فیصلہ دے چکی، فیصلہ میں کہا گےا کہ پارٹی سربراہ با اختیار ہوتا ہے اور یہ سیاسی پارٹیاں ملک کی حکومت کو چلاتی ہیں، پارلیمنٹ کے امور چلانے کے لئے پارلیمنٹرینز کا اعلی اخلاق کا ہونا ضروری ہے، پارلیمنٹرین کے لئے ضروری ہے کہ 62/63 پر پورا اترتے ہوں، جو شخص آئین کے آرٹیکل 62 پر پورا نہیں اترتا وہ پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ فیصلہ میںچیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ آئین پاکستان میں حاکمیت اللہ کی ہے عوام کے منتخب نمائندے اللہ کا اختیار امانت سمجھ کر استعمال کرنے کے پابند ہیں، آئین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے ہر شخص کا ایسوسی ایشن اور پارٹی بنانا حق ہے لیکن اس کے لئے اخلاقیات پر پورا اترنا ضروری ہے، جو شخص نااہل کیا گیا ہو وہ پارٹی کا ہرگز سربراہ نہیں بن سکتا، نواز شریف نے اپنی نااہلی کے بعد جو بھی فیصلے کئے ہیں وہ کالعدم قرار دئیے جاتے ہیں، فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں بتائی جائیں گی، فیصلہ میں 3 مارچ کو ہونے والے سینٹ انتخابات کے حوالے سے کوئی ڈیکلریشن نہیں دےا گےا۔ قبل ازیںانتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے اپنے دلائل میں کہا کہ سیاسی جماعت بنانا اور جماعت کا ممبر بننا بنیادی حق ہے، آئین کے کسی دوسرے آرٹیکل سے بنیادی حقوق ختم نہیں کئے جاسکتے، تمام سیاسی جماعتیں پارلیمانی کمیٹی میں قانون پر متفق ہیں، قانون سازی آئین سے متصادم ہو تو جوڈیشل نظر ثانی ہوسکتی، آئین کی بنیاد جمہوریت پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں عدالت صرف آرٹیکل 17 کو ہی دیکھیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ممبران کی اہلیت کے آرٹیکل کو چھوڑ دیا جائے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ پارلیمنٹ نے ملکی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی، آرٹیکل 17/2 پارٹی بنانے کی اجازت دیتا ہے، ملکی سالمیت کے خلاف کام کرنے والی جماعت پر پابندی لگ سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ملا کر ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی صدارت کیلئے نئے قانون کا جائزہ آرٹیکل 62، 63 کے تناظر میں لیا جاسکتا ہے، کیا آرٹیکل 62 ون ایف کی قدغن کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس عمر عطا بندےال نے کہا کہ سیاسی جماعت میں شمولیت پارلیمنٹ کا حصہ بننے کیلئے کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرا تو یہ مسئلہ ہے کہ میں سوال بھی نہیں پوچھ سکتا، ذہن میں واضح سوال ہے لیکن نہیں پوچھوں گا۔ رانا وقار نے کہا کہ عدالت کو جمہوریت کی خاطر توازن پیدا کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تین دن سے جمہوریت والی رٹ کو ہی پڑھ رہا ہوں، جمہوریت میں پارٹی سربراہ کے کردار کا جائزہ لیا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے اپنے دلائل مکمل کرلئے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے جواب الجواب میں اپنے دلائل دیئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے تمام درخواستوں میں کی گئی استدعا کا جائزہ لیا۔ آپکی استدعا ہے کہ شق 203 کو کالعدم کئے بغیر آٹیکل 62 کا اطلاق کیا جائے ۔ بیرسٹر فروغ نسیم اگر چوری کیخلاف قانون نہ ہو تو کیا بنک ڈکیتی بنیادی حق ہوگا، نواز شریف پر آرٹیکل 62 ون ایف کی قدغن ہے، بنیادی حقوق کی آڑ میں کوئی غلط کام نہیں کیا جا سکتا، تمام آئینی حقوق اخلاقی اقدار سے مشروط ہوتے ہیں، کیا کسی چور یا منشیات سمگلر کا پارٹی سربراہ بننا بنیادی حق ہو سکتا ہے۔؟ عدالت فیصلوں میں کہہ چکی پارٹی سربراہ کا کام پوسٹ آفس والا نہیں، پارٹی سربراہ ہی ارکان کو ہدایات جاری کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی سربراہ ربڑ سٹمپ نہیں ہوسکتا، لوگ تو کہتے ہیں لیڈر کیلئے جان بھی حاضر ہے، تمام آئینی حقوق اخلاقی اقدار سے مشروط ہوتے ہیں۔ کسی پارلیمنٹرین کو چور اچکا نہیں کہا فروغ نسیم نے کہا کہ ہم امریکہ میں نہیں جہاں الیکشن کے بعد پارٹی امیدوار کا چناﺅ ہو، ہمارے کلچر میں پارٹی سربراہ کی بہت اہمیت ہے، صدر پاکستان کے اختیارات انتہائی محدود ہیں، کیا محدود اختیار والے عہدے پر بے ایمان شخص لگایا جا سکتا ہے، نا اہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے سے پارلیمانی سسٹم تباہ ہو جائے گا، نااہل شخص کا پارٹی سربراہ بننا خود انتخابی اصلاحات ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ بعدازاں فروغ نسیم کا جواب الجواب مکمل ہوگےا۔ ان کے بعد تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان کے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں ہوسکتا، نااہل شخص کس طرح پارلیمنٹرین، وزراءکا انتخاب کرسکتا ہے، کی گئی ترمیم کو عدالت کالعدم قرار دے، عدالت نے کیس میں اٹارنی جنرل و دیگر وکلاءکے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے قرار دےا کہ تھوڑی دیر کے بعد فیصلہ کےا جائے گا۔ بعدازاں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کیس کا مختصر فیصلہ جاری کردےا، کیس کا فیصلہ چیف جسٹس نے پڑھ کر سناےا۔ بی بی سی کے مطابق عدالت نے بطور پارٹی صدر نواز شریف کی طرف سے 28 جولائی کو سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد کئے جانے والے تمام فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔ جولائی 2017ءمیں سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ کیس میں نااہل قرار دیئے جانے کے بعد نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے سربراہ کا عہدہ بھی چھوڑنا پڑا تھا۔ جس کے بعد پارلیمان میں انتخابی اصلاحات سے متعلق آئینی ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت کوئی بھی نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ نے اس آئینی ترمیم کو دوتہائی اکثریت سے منظور کیا تھا۔ انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ءکی منظوری کے بعد نواز شریف اکتوبر 2017ءمیں اپنی جماعت کے دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے تاہم اس انتخابی اصلاحات بل کو حزب مخالف کی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔ ٹی وی کے مطابق فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کی شق 203 اور 232 کو آرٹیکل 62 اور 63 کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کوئی بھی نااہل شخص پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا، طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے عوام اپنی طاقت کا استعمال عوامی نمائندوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ آرٹیکل 17 سیاسی جماعت بنانے کا حق دیتا ہے جس میں بھی قانونی شرائط موجود ہیں۔
صدارت/ نااہل

ای پیپر-دی نیشن