2005 میں کیلبری فونٹ کے موجد کو ایوارڈ ملا: ریڈلے....گواہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاءکو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے آئندہ سماعت پر طلب
اسلام آباد (نامہ نگار) سابق وزیراعظم نواز شریف، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کیخلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران استغاثہ کے غیرملکی گواہوں رابرٹ ریڈلے اور راجہ اختر ریاض نے بیان رکارڈ کرا دیا ہے جبکہ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اور مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ملک نے ان جرح بھی مکمل کر لی ہے، عدالت نے استغاثہ کے اہم گواہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاءکو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے سماعت دو مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔ سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ استغاثہ کے گواہ رابرٹ ریڈلے نے اعتراف کیا کہ ونڈوز وسٹا کا بیٹا ورژن 2005میں موجود تھا جس کو تکنیکی مہارت رکھنے والا کوئی بھی شخص ڈاﺅن لوڈ کر کے استعمال کر سکتا تھا، آئی ٹی ایکسپرٹ نہ ہونے کے باوجود 2005 میں کیلیبری فونٹ استعمال کیا، 2005سے پہلے کیلبری سمیت 6کلیئر فونٹ موجود تھے جبکہ دوسرے گواہ راجہ اختر ریاض نے تسلیم کیا کہ میں واجد ضیا کا فرسٹ کزن ہوں، جے آئی ٹی نے اس کیس کے لئے میری خدمات حاصل کیں، اس کام کے لئے کتنی فیس لی یہ ذاتی نوعیت کا معاملہ ہے بتا نہیں سکتا، یہ میرا استحقاق ہے فیس نہیں بتا سکتا، استغاثہ کے گواہ رابرٹ ریڈلے کی طرف سے اپنے ریکارڈ شدہ بیان میں تصحیح کرنے کی خواہش پر نوازشریف کے وکیل نے اعتراض اٹھا دیا ہے، انہوں نے کہا آپ کا بیان مکمل ہو چکا ہے اور اب اس پر جرح جاری ہے تاہم اگر بیان میں کچھ تبدیلی چاہتے ہیں تو وہ مرحلہ بعد میں آئے گا۔ اس موقع پر رابرٹ ریڈلے کی جانب سے تیار کیے گئے نکات خواجہ حارث کو دے دیئے گئے جبکہ نیب پراسیکیوٹر نے ان نکات کو بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی۔ سماعت کے دوران شریف فیملی کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کا آغاز کرتے ہوئے رابرٹ ریڈلے سے پوچھا کہ کیا کیلبری فونٹ کے خالق کو آئی ٹی میں مثبت خدمات پرایوارڈ دیا گیا تھا؟ جس پر گواہ نے جواب دیا کہ جی یہ بات درست ہے کہ 2005میں ان کو خدمات پر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ نے رپورٹ میں لکھا کہ آئی ٹی ایکسپرٹ ونڈو وسٹا بیٹا سے کیلبری فونٹ ڈاﺅن لوڈ کرسکتا تھا۔ جس پر گواہ نے جواب دیا کہ آئی ٹی کا ماہر ونڈو وسٹا بیٹا سے کیلبری فونٹ ڈاﺅن لوڈ کرسکتا تھا۔ گواہ رابرٹ ریڈلی نے جواب دیا کہ میں نے یہ بات اپنی رپورٹ میں بھی لکھی ہوئی ہے۔ خواجہ حارث نے گواہ سے پوچھا کہ آپ کی رپورٹ میں ہے کہ استعمال کنندہ ونڈو وسٹا بیٹا سے کیلبری فونٹ کسی تنظیم سے ڈاﺅن لوڈ کرسکتا تھا۔ جس پر رابرٹ ریڈلی نے جواب دیا کہ جی ہاں یہ بات درست ہے اگر وہ تنظیم رسائی دے تو وہ سافٹ ویئر ڈاﺅن لوڈ کرسکتا تھا۔ خواجہ حارث نے پوچھا آپ کی رپورٹ میں ہے کہ اگر یوزر تکنیکی طور پر مضبوط ہو تو کیلبری فونٹ ڈاﺅن لوڈ کرسکتا ہے۔ جس پر گواہ نے کہا جی یہ بات درست ہے۔ خواجہ حارث نے پوچھا آپ نے رپورٹ میں ڈکلیریشن دی ہے، جتنی معلومات حاصل کی وہ ذرائع بھی بتائے ہیں۔ جس پر گواہ نے کہا، یہ درست ہے کہ معلومات کا ذریعہ بھی میں نے فراہم کیا۔ اس موقع پر خواجہ حارث نے استفسار کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ تمام ذرائع کا آپ نے ذکر کیا۔ گواہ نے جواب دیا کہ پہلی رپورٹ کے ذرائع کا ذکر کیا جبکہ دوسری رپورٹ کے ذرائع کو حذف کیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ 2002سے 2006 تک ونڈو نے 6قسم کے فونٹ اسٹائل متعارف کروائے ان میں کیلبری بھی تھا۔ گواہ رابرٹ ریڈلی نے کہا کہ 2002سے 2005تک متعارف کروائے گئے فونٹس میں کیلبری بھی تھا۔ خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے رپورٹ میں ذکر کیا کہ چھ قسم کے فونٹ متعارف کروائے؟، جس پر گواہ نے جواب دیا کہ رپورٹ تیکنیکی بنیادوں پر تھی اس لیے میں نے ذکر نہیں کیا۔ برطانوی شہری رابرٹ ریڈلی فرانزک ماہر ہیں اور پاناما کیس کی تحقیقات کے دوران انہوں نے کیلبری فونٹ کا نکتہ اٹھایا تھا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے آپ کی رپورٹ درست نہیں؟ جس پر گواہ نے کہا کہ یہ بات غلط ہے۔ اپنی رپورٹ کی درستگی پر مکمل یقین ہے، میں نے نیب حکام کے ایما پر رپورٹ تیار نہیں کی۔ رابرٹ ریڈلے نے دوران سماعت گزشتہ روز کے بیان میں تبدیلی کی خواہش کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ آئی ٹی ایکسپرٹ نہ ہونے کے باوجود 2005 میں کیلبری فونٹ استعمال کیا تھا۔ خواجہ حارث کے سوال پر گواہ نے کہا کہ میں فرانزک ماہر ہوں، کمپیوٹر یا آئی ٹی ایکسپرٹ نہیں۔ سماعت کے دوران 10منٹ کا وقفہ ہوا تو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو عدالت سے جانے کی اجازت مل گئی۔ ایون فیلڈ کے حوالے سے دستاویزات کے فرانزک جائزے کے لیے رائج طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہوئے رابرٹ ہیڈلے نے کہا کہ فرانزک معائنے کے لیے ملنے والی دستاویزات کا متن پڑھے بغیر موازنہ کیا اور ان دستاویزات کا الیکٹرانک جائزہ بھی لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ دستاویزات کے جائزے کے لیے صفحات کو تبدیل یا ایڈجسٹ کیا بلکہ ڈیڈ لائن اور وقت کی کمی کے باعث مختصر رپورٹ تیار کی تھی۔ رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ وقت کی کمی نہ ہوتی تو اس سے دس گنا زیادہ بڑی رپورٹ تیار کر سکتا تھا۔ خواجہ حارث نے رابرٹ ریڈلے کے بیان پر سوال کیا کہ اگر آپ کو دستاویزات کے موازنے اور رپورٹ کی تیاری کے لیے زیادہ وقت ملتا تو کیا زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے تھے جس کو انہوں نے رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست نہیں اور مجھے اپنی رپورٹ کی مکمل درستی پر اعتماد ہے۔ رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ میں آئی ٹی یا کمپیوٹر ایکسپرٹ نہیں لیکن فونٹس کی فیلڈ میں مہارت رکھتا ہوں۔ گواہ نے کہا کہ دستاویزات کے موازنے کے لیے اصل کاغذات کو ترجیح دی جاتی ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے جو عدالت میں کہا وہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے صرف تصدیق کے لیے دہرایا جا رہا ہے، آپ کا بیان مکمل اور قلم بند ہو چکا ہے، آپ کے بیان میں اضافہ یا کمی نہیں ہو سکتی، نیب پراسیکیوٹر نے بیان پڑھ کر رابرٹ ریڈلے کو سنایا، نیب پراسیکیوٹر اور خواجہ حارث کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، خواجہ حارث نے نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دوران جرح آپ درمیان میں نہ بولیں، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں ریکارڈ پر بات کر رہا ہوں، خواجہ حارث نے کہا کہ آپ بعد میں بولیں اپنی باری کا انتظار کریں جلدی نہ کریں، بار بار مداخلت کی آپ کی عادت نہیں جائے گی، جس کے بعد سماعت میں دس منٹ کا وقفہ کر دیا گیا، وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے رابرٹ ریڈلے پر جرح کی۔ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے رابرٹ ریڈلے سے سوال کیا کہ آ پ کی رپورٹ کا متن صفحہ نمبر ایک سے سات تک ہے، گواہ ربرٹ ریڈلے نے کہاکہ جی یہ بات درست ہے متن انہی صفحات پر ہے، امجد پرویز نے کہا کہ ان صفحات پر آپ کے دستخط نہیں ہیں، گواہ نے کہا کہ یہ بات بھی درست ہے، امجد پرویز نے پھر پوچھا کہ آپ اپنی رپورٹ پاکستانی عدالت میں دینے کو تیار تھے، گواہ نے کہا کہ برطانوی قانون کے مطابق کہیں بھی بیان دینے کو تیار تھا، امجد پرویز نے پوچھا کہ آپ کی رپورٹ میں کوئی انڈیکس نہیں ہے، گواہ نے کہا کہ یہ درست ہے کوئی انڈیکس موجود نہیں، امجد پرویز نے کہا کہ انڈیکس بی سے ای تک آپ کی لیبارٹری کی سیل مہر نہیں لگی ہوئی، گواہ نے کہا کہ ہماری لیب کی مہر نہیں ہے، رپورٹ کے کاغذات میں نہیں لکھا دستاویزات کب وصول کیں، امجد پرویزنے کہا کہ رپورٹ کے کے لئے آپ کو جو ہدایت نامہ ملا اس کی تاریخ درج نہیں، گواہ نے کہا کہ درست ہے کہ تاریخ درج نہیں ہے، مریم نواز کے وکیل نے استفسار کیا کہ رپورٹ میں نہیں لکھا کہ رپورٹ کے لئے کاغذات کس نے دیئے، گواہ نے کہا کہ جی درست ہے کہ یہ نہیں لکھا ، رپورٹ میں نہیں لکھا کہ کب کام کا آغاز کیا، رپورٹ میں دستاویزات کے وصول کنندہ کے بارے میں نہیں لکھا، دستاویزات کی سیل کس نے کھولی، نہیں لکھا، سیل لفافے رپورٹ کے ساتھ نہیں لگائے، سیل لفافے پر کوئی پتہ درج تھا یا نہیں یہ یاد نہیں، امجد پرویز نے کہا کہ آپ سوالوں کا جواب دینے سے گریزاں ہیں، گواہ نے کہا کہ جی نہیں، ایسا نہیں ہے، امجد پرویز نے پوچھا کہ آٹھ جولائی کو جب دوسری رپورٹ تیار کی تو کون سا دن تھا؟ گواہ نے جواب دیا کہ آٹھ جولائی کو ہفتہ کا دن تھا، زیادہ تر دفاتر ہفتہ اتوار کو بند ہوتے ہیں، ایڈوکیٹ امجد پرویز ملک نے کہا کہ گواہ نے پہلے سیشن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے ماہر ہونے کا اعتراف کیا، رابرٹ ریڈلے نے تسلیم کیا کہ ایک ماہر کو رائے کے لئے اپنے معلومات کے ذرائع بتانے ہوتے ہیں، رابرٹ ریڈلے نے اپنی دوسری رپورٹ میں معلومات کے ذرائع نہیں بتائے، گواہ نے تسلیم کیا کہ اس نے دوسری رپورٹ ہفتے کے دن تیار کی اور اتوار کو موکل کے حوالے کی، رابرٹ ریڈلے نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس کی لیب میں پیر سے جمعہ تک کام کرتی ہے، گواہ نے تسلیم کیا کہ اس نے اپنی رپورٹ میں کسی کتاب، آرٹیکل یا ویب سائٹ کا حوالہ نہیں دیا۔ رابرٹ ریڈلے پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ملک کی جرح مکمل ہوئی تو سماعت میں آدھ گھنٹے کے لیے وقفہ کر دیا گیا۔ وقفے کے بعد استغاثہ کے دوسرے غیر ملکی گواہ راجہ اختر کا بیان قلمبند کیا گیا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے گواہ سے حلف لیا۔ راجہ اختر ریاض نے کہا کہ میں انگریزی میں بات کرنا چاہوں گا، گواہ نے کہا کہ برطانیہ سے تعلیم یافتہ ہوں، 1994میں لاءفرم قائم کی، 12مئی 2017کو جے آئی ٹی نے خدمات حاصل کیں، خدمات پیشہ وارانہ اور قانونی معاونت کیلئے حاصل کی گئیں، گواہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں جاری کارروائی کے متعلق قانونی معاونت حاصل کی گئی، خواجہ حارث نے کہاکہ گواہ راجہ اخترسے لیڈنگ سوال پوچھا جارہا ہے، راجہ اختر نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی دستاویزات کی نقول میں نے وصول کیں، دستاویزات کا جائزہ لیا تو اس میں 5جنوری 2017 کا خط بھی تھا، نیسکول اور نیلسن کا ٹرسٹ ڈیکلیریشن مجھے دیا گیا، دوسرا ڈیکلریشن کومبرکمپنی سے متعلق تھا، گواہ راجہ اختر ریاض نے کہا کہ مسٹر فری مین نے کہاکہ حسن نواز میرے دفتر میں آیا، فری مین کے مطابق 4فروری 2006کو حسین نواز نے دستخط کئے، خط کی نقل گواہ راجہ اختر کو کمرہ عدالت میں دکھائی گئی، جس پر گواہ نے کہا کہ میں اس خط کی تصدیق کرتا ہوں، دستاویزات کے بنڈل میں دونوں ڈیکلریشن کی نقول بھی موجود تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جو کاغذات کی کاپیاں بنڈل کی شکل میں وصول ہوئیں انہیں بڑے غور سے دیکھا، جے آئی ٹی نے بھی ان کا معائنہ کیا، ہم نے بہت سی بے ضابطگیاں محسوس کیں، ان کاغذات میں رد و بدل کیا گیا تھا۔ جس پر جے آئی ٹی نے ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایت کی، راجہ اختر نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کو میں نے جے آئی ٹی سے متعارف کرایا، میں خود رابرٹ ریڈلے کی لیب میں موجود رہا، میرے سامنے دونوں رپورٹس تیار ہوئیں، رپورٹس میری موجودگی میں واپس پاکستان بھیجی گئیں، انہوں نے بتایا کہ کمنٹری زیر التوا مقدمات کے حوالے سے تھی، میری کمنٹری جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم چار میں درج ہے، میری کمنٹری جے آئی ٹی کا بنیادی ثبوت بن چکی ہے، میں نے حدیبیہ ریفرنس میں بھی کمنٹری بھیجی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میری کمنٹری 1999کے فیصلہ کا حصہ ہے، میری کمنٹری ایک انگریزی میں بھی چھپ چکی ہے، خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ آپ کیسے کمنٹری بھیج سکتے ہیں، مجھے اس معاملے پر تعجب ہے، نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ آپ اعتراض جرح کے دوران کر لینا، خواجہ حارث نے کہا کہ یہ بات اگر یہاں حل ہو جائے تو بہتر ہے، اس طرح جرح پر ایک ہفتہ لگ جائے گا، عمران شفیق نے کہا کہ آپ پورا ہفتہ لیں لیکن گواہ کو بیان قلمبند کرانے دیں، خواجہ حارث نے اعتراض کیا کہ کس طرح بغیر دستخط کے کوئی بیان ریکارڈ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ گواہ اختر ریاض راجہ کے بیان کا اہم موڑ اس وقت آیا جب انہوں نے اعتراف کیا کہ میں واجد ضیا کا فرسٹ کزن ہوں، جے آئی ٹی نے اس کیس کے لئے میری خدمات حاصل کیں، جس کے بعد مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے گواہ پر جرح کا آغاز کیا، انہوں نے پوچھا کہ آپ کو اس کام کے لئے کتنی فیس دی گئی، راجہ اختر نے کہا کہ یہ ذاتی نوعیت کا ہے بتا نہیں سکتا، یہ میرا استحقاق ہے فیس نہیں بتا سکتا، سپریم کورٹ کو معلوم ہے کہ مجھے کتنی فیس دی گئی۔ امجد پرویزنے پوچھا کہ کیا آپ کی کمپنی کا دفتر آپ کی ملکیت ہے جس پر گواہ نے کہا کہ میری لاءفرم کا دفتر میری ملکیت نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو میں بہت امیر شخص ہوتا۔ مریم نواز کے وکیل نے سوال کیا کہ آپ کے ساتھ معاملات کس نے طے کیے جس پر راجہ اختر نے کہا کہ واجد ضیاءنے نہیں بلکہ جے آئی ٹی نے خدمات حاصل کیں۔ امجد پرویز ملک نے کہا کہ کیا کسی فرانزک ماہر کی خدمات جے آئی ٹی براہ راست حاصل نہیں کر سکتی تھی تو گواہ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ جے آئی ٹی براہ راست ماہر فرانزک کی خدمات حاصل کر سکتی تھی، تاہم براہ راست خدمات حاصل کرنا بظاہر مشکل کام تھا۔ امجد پرویز نے سوال کیا کہ کیا آپ کا یا آپ کے کسی فیملی ممبر کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے تو گواہ نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ میرا یا میرے کسی فیملی ممبر کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے، امجد پرویزنے کہا کہ یہ بات اخبارمیں شائع ہو چکی ہے کہ آپ ایک سیاسی کے سرگرم کارکن ہیں، گواہ نے کہا کہ میرا فیس بک اکاﺅنٹ موجو دہے۔ امجد پرویزنے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو قومی خزانے فیس دی گئی، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمیں اس سوال پر اعتراض ہے،گواہ نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ مجھے فیس پاکستان کے قومی خزانے سے دی گئی۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے بھی گواہ پر جرح کی۔ خواجہ حارث کے سوال پرگواہ اختر راجہ نے کہا کہ واجد ضیا کو جے آئی ٹی کا سربراہ مقرر ہونے پر میسج کرکے مبارک باد دی، جے آئی ٹی نے خود سے مجھے ہائیر کرنے کا فیصلہ کیا، دستاویزات کا جائزہ لینے اور آئندہ کا اقدامات کے حوالے سے برطانوی قوانین کے تحت مجھے ہائیر کیا گیا۔
گواہ بیان