• news

احتساب صرف سیاستدانوں نہیں ملٹری ‘ عدلیہ کا بھی کیا جائے: نیب کی ازسرنو تشکیل ہونی چاہئے: چیئرمین سینٹ

کراچی (این این آئی+ نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ احتساب صرف سیاست دانوں کا نہیں بلکہ سول، بیوروکریسی، ملٹری اور عدلیہ کا بھی ہونا چاہیے۔ جمہوری عمل کو جاری و ساری رہنا چاہیے۔ جن جماعتوں کی اسمبلیوں میں نمائندگی موجود ہے، انہیں سینٹ میں نمائندگی کا حق حاصل ہے۔ سینٹ الیکشن میں نواز لیگ کے آئوٹ ہونے سے سیاسی نظام کو دھچکا لگا ہے۔ اس وقت ملک کسی قسم کے عدم استحکام یا محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ نیب کی ازسر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔ عام انتخابات انشاء اللہ وقت پر ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایکسپو سینٹر میں فلم فیسٹیول کی تقریب اور بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ اداروں کے سٹیک ہولڈرز کے درمیان آپس میں آئین کے تحت گفتگو ہونی چاہیے کیونکہ محاذ آرائی اور بیان بازی سے مزید ٹوٹ پھوٹ بڑھے گی۔ جمہوری عمل کو جاری و ساری رہنا چاہیے۔ تمام جماعتوں کو سینٹ الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔ جن سیاسی جماعتوں کی اسمبلیوں میں نمائندگی ہے ان کو سینٹ میں نمائندگی کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کسی قسم کے عدم استحکام یا محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ بلا تفریق سب کا احتساب ہونا چاہئے۔ احتساب صرف سیاست دانوں کا نہیں بلکہ سول، بیوروکریسی، ملٹری اور عدلیہ کا بھی ہونا چاہیے۔ سینٹ انتخاب میں ن لیگ کے آئوٹ ہونے سے سیاسی نظام کو دھچکا لگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کو اپنے قانون کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔ نیب کی ازسرنو تشکیل کی ضرورت ہے۔ عدلیہ اور سیاسی قوتوں سمیت تمام اداروں کے احتساب کے لیے ایک کورٹ اور ایک قانون ہونا چاہیے۔ آئینی سٹیک ہولڈر کے درمیان ڈائیلاگ کا سلسلہ ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ملک کے اندر اندرونی استحکام موجود نہیں ہوگا، شدت پسند فورسز آگے بڑھتی جائیں گے، ان فورسز کا ملک کے اندر سب سے بڑا قلع قمع جمہوریت اور جمہوری نظام ہی کرسکتا ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ اگر پارلیمان مضبوط ہو، پارلیمان اور تمام ادارے آئین کے تحت اپنا کام سرانجام دیں تو یہ ملک جس کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے قربانیاں دیں، اس کو ہم ایک مضبوط ملک میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ میاں رضا ربانی نے کہا کہ تمام خواتین محترمہ بینظیر بھٹو کو ایک فلسفہ مانتی ہیں، بے نظیر کو پتہ تھا کہ ملک کی اشرافیہ رکاوٹیں کھڑی کریگی۔ ملک کی بیوروکریسی اور اشرافیہ نے ملک کو شدت پسندی کی طرف دھکیل دیا اور بے نظیر بھٹو کے خدشات درست ثابت ہوئے ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے مفاہمت کا نظریہ پیش کیا تاکہ ملک بچایا جاسکے۔ ملک کے اندر اور باہر والوں سے مفاہمت کے ذریعے جمہوریت مضبوط کرنا چاہتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو اپنے انقلابی نظریہ کے مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے کبھی اپنے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال مسلمانوں کی پیدا کردہ نہیں بلکہ امریکی سامراجیت نے خطے میں صورتحال کو خراب کیا۔ عالمی دہشت گردی کو بڑھانے میں بڑی طاقتوں کا بڑا کردار ہے۔ عالمی طاقتوں کو آمروں کی حکومتوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو مسلمانوں اور مغربی دنیا کے درمیان ڈائیلاگ کی حامی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے نظریہ پر عمل پیرا ہوکر دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے۔ ایک ہی شخص کے احتساب کے سوال پر رضا ربانی نے 12مارچ کے بعد جواب دینے کا عندیہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت کسی قسم کے عدم استحکام اور محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ای پیپر-دی نیشن