خدا کی قسم کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں‘ نیت صاف‘ کسی نے ٹیسٹ کرنا ہے تو کر لے: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ خدا کی قسم کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، سیاسی مقدمات کو ہاتھ بھی لگانا نہیں چاہتے لیکن لوگوں کے بنیادی حقوق کے لئے مفاد عامہ کے مقدمات مجبوری بن گئی ہے، چاہتے ہیں کہ لوگوں کو پینے کے لئے صاف پانی اور کھانے کے لئے روٹی ملے، ٹیکے لگنے سے بچیوں کے ہارمونز تبدیل ہوکر ان کے چہروں پر بال نکل رہے ہیں، وعظ کے لئے نہیں بیٹھے، لیکن یہ کچھ دینے کا وقت ہے، سینئر وکلا ء کو قربانیاں دینا پڑیں گی، انہیں اللہ نے بہت کچھ دیا ہے اب لوگوں کو کچھ دینے کا وقت آگیا ہے، چیف جسٹس نے کہا میں اس ملک کا سب سے چھوٹا وکیل تھا، اب بھی ملک کا سب سے چھوٹا جج ہوں، پینشنر کیس میں جن بیوائوں کو 1300 روپے پنشن ملتی تھی ہم نے 8 ہزار کردی، اب کم ازکم ایک بیوہ سر درد کی گولی تو لے سکے گی، ہم چاہتے ہیں کسی کا نقصان نہ ہو، ہماری نیت صاف ہے ہمیں اگر کسی نے ٹیسٹ کرنا ہے تو ابھی کرلے، نہیں چاہتے کہ ادویات ساز کمپنیوں کا نقصان ہو اور انہیں دیوار سے لگا دیا جائے ، لیکن یہ بھی نہیں چاہتے کہ لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا جائے،باہم بیٹھ کر حل نکالیں ،پاکستان میں کوئی شخص اس وقت تک کام کرے گا جب اسے چار پیسے ملیں گے، لوگ منافع کے لیے سرمایہ کاری کرتے ہیں، ہمیں ایسا دوستانہ ماحول بنانا ہوگا جس سے ملک کی صنعت کا ماحول سازگار ہو۔منگل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف کیس کی سماعت کی توچیف جسٹس نے کہا کہ ادویہ ساز کمپنیوں کو قیمتوں میں اضافے کے لیے کس فورم سے رجوع کرنے کا حق تھا؟ ڈریپ میں ابھی تک درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ڈریپ کے نمائندے نے کہا کہ کچھ کمپنیوں نے مکمل تفصیلات فراہم نہیں کیں 90 روز میں درخواست پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا میرے سٹاف نے ایک ماہ میں ساڑھے تین لاکھ ہائی کورٹس کی فائلوں کا جائزہ لیا، ادویات کی قیمتوں کا تعین سپریم کورٹ نے نہیں کرنا، قیمتوں میں توازن ہونا چاہیے، کوئی شخص نقصان کے لیے کاروبار نہیں کرتا،خدمت خلق کا جذبہ ڈاکٹر میں ہونا چاہئے، آپس میں بیٹھ کر قیمتوں کا تعین کریں، عدالتوں کو بیچ میں نہ لائیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈریپ کو کہہ دیتے ہیں کہ درخواستوں کو سن کر فیصلہ کرے، 6ہزار روپے کی ہیپاٹائٹس کی دوائی 25 ہزار روپے میں بیچی جارہی ہے،سب سے بڑا قصور ڈریپ کا ہے ،ہم راتوں کوبھی بیٹھ کرادویات سازکمپنیوں کی درخواستوں کاجائزہ لیں گے،ادویات ساز کمپنیوں کو معقول معاوضہ ملنا چاہیے،نہیں چاہتے کہ ادویہ ساز کمپنیوں کو دیوار سے لگا کر مفت دوائیاں بیچی جائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیاآپ 2002 کی قیمتوں میں 94 فیصد اضافہ چاہتے ہیں؟ جس پر سرکاری وکیل ساجد بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ ڈریپ اگرقانون کیمطابق کام کررہی ہوتی توہمیں عدالت آنیکی ضرورت نہ پڑتی اس وقت 368 مقدمات ڈریپ میں زیر التوا ہیں، چئیرمین ڈریپ کا کہنا تھا کہ ہارڈشپ کیسزمیں سالانہ8فیصدسے زائداضافہ نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس نے کہا انصاف کرنا صرف سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے، ڈریپ کا کام بھی انصاف کرنا ہے،ہمارے پاس ایسی ایسی چیزیں آتی ہیں اللہ کا خوف آتا ہے۔ادویات ساز کمپنیوں کے وکیل نے کہا کہ 2010 میں قیمتوں میں اضافہ کے لئے درخواستیں دی تھیں ڈریپ نے فیصلہ نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ادویہ ساز کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ پالیسی کے تحت کرنا ہے، اگر قانون کے مطابق سالانہ 8 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے یا تین سالوں میں 24 فیصد اضافہ ہونا ہے اسکو دیکھیں گے، ہم نے قانون طے کرنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے ہائیکورٹس میں 150 مقدمات زیر سماعت ہیں اس سے انکی بدنامی ہورہی ہے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج صبح تک ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ کمپنیاں اور ڈریپ آپس میں بیٹھ کر اس مسئلے کا مناسب حل نکالیں۔