غلط دستاویزات جمع کرانا جرم، دوہری شہریت والے افسر 10 روز میں بتا دیں ورنہ کاروائی ہوگی: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے معطل ایس ایس پی راؤ انوار سمیت تمام سرکاری افسران کی دوہری شہریت کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے جبکہ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت میں غلط دستاویزات دینا جرم ہے۔ تین رکنی بینچ نے سرکاری افسران کی دوہری شہریت سے متعلق کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کو بتایا کہ 3500 میں سے 13 سرکاری افسران ہیں جو دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دوہری شہریت سے متعلق قانونی چارہ جوئی نہیں ہوسکتی مگر عدالت میں غلط دستاویزات دینا جرم ہے۔ اگر کسی نے دوہری شہریت چھپائی ہے تو اس کی تحقیقات کون کرے گا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے استفسار کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 3500 میں سے صرف 13 لوگ دوہری شہریت کے حامل ہیں؟ پتہ نہیں کتنے ایسے ہوں گے جو حساس مقامات پر تعینات ہیں اور دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ حساس مقامات پر دوہری شہریت کے حامل لوگوں کی تعیناتی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ دوہری شہریت کے حامل افسران کو آخری موقع دیا جاتاہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر بتا دیں، اگر عدالت کو نہ بتایا گیا تو پھر قانونی کارروائی ہو گی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہاکہ سرکاری افسران جب بیرون ملک پوسٹنگ پرجاتے ہیں تو دوہری شہریت لے لیتے ہیں، ہم سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی رپورٹ سے مطمئن نہیں، نادرا کے بڑے افسران بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں جس پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کو بتایا کہ وزارت خارجہ نے رپورٹ دی ہے ان کا کوئی افسر دوہری شہریت نہیں رکھتا، افسران نے تمام معلومات رضاکارانہ طور پر دی ہیں تاہم افسران سے بیان حلفی بھی لیا جاسکتا ہے۔ سماعت کے دوران نقیب اللہ قتل کیس میں معطل ایس ایس پی راؤ انوار کا بھی ذکر ہوا، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ کیا راؤ انوار کے اقامے اور ٹریول ریکارڈ کو چیک کیا ہے؟ پتہ کر کے بتائیں راؤ انوار کتنی مرتبہ بیرون ملک گئے۔ سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کی دوہری شہریت سے متعلق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کر تے ہوئے سیکرٹری خارجہ،ڈی جی نادرا سمیت تمام صوبوں کے سیکرٹری سروسز کوبھی طلب کر لیا اور حکم دیا ہے کہ جن افسران کی دوہری شہریت ہے وہ افسران 10روزمیں رضاکارانہ اپنی دوہری شہریت ظاہرکریں تو کارروائی نہیں ہوگی، اگر10روزبعد کسی افسر کی دوہری شہریت معلوم ہوئی توکاروائی ہوگی اس معاملے کو منطقی انجام تک لے جانا ہے، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کو بتایا کہ افسران نے تمام معلومات رضاکارانہ طور پر دی ہیں افسران سے بیان حلفی بھی لیاجاسکتاہے اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیایہ ماننے کی بات ہے ساڑھے تین ہزار میں 13لوگ دوہری شہریت رکھتے ہوں، یہ افسران جب پوسٹنگ پر جاتے ہیں تودوہری شہریت لے لیتے ہیں‘ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا رائو انوار کی دوہری شہریت چیک کی ہے، کیاراوانوار کاٹریول ریکارڈ چیک کیاہے اس پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا کہنا تھا کہ یہ ریکارڈ صوبائی حکومت دے سکتی ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ راوانوار کی دوہری شہریت کاعلم نہیں ہے معلومات لے کر بتا سکتا ہوں ٹائم دیا جائے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کب تک یہ معلومات حاصل کریں گے، یہ تاریخ کاتصور ختم ہوناچاہیے سندھ حکومت کورائوانوار کی ٹریول ہسٹری دیکھناچاہیے تھی ، دوہری شہریت والوں کوحساس عہدوں پر نہیں ہوناچاہیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سرکاری چھٹی کے ریکارڈ سے بھی شہریت کا پتہ چلایا جاسکتا ہے عدالت کا کہنا تھا کہ یہ قابل قبول نہیں کہ 30ہزار افسران میں سے صرف 204 افسران کے پاس دوہری شہریت ہے، عدالت نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے ڈی جی امیگریشن اور ڈی پاسپورٹ کوبھی طلب کرلیا جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں معاملہ بند کردیں، فارن سروس ملازمین کاریکارڈ چیک کیا، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ فارن سروس نے رپورٹ دی ہے ان کاکوئی افسر دوہری شہریت نہیں رکھتا جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ بظاہر درست نہیں لگتا سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ ڈی ایم جی کے 866افسران میں 853نے دوہری شہریت پر رپورٹ دی ہے 13افسران نے دوہری شہریت پر رپورٹ نہیں دی، آفس مینجمنٹ گروپ میں 14افسران نے رپورٹ نہیں دی ،آزاداداروں اور ڈویژن میں 191افسران دوہری شہریت رکھتے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ پبلک سروس افسران کی دوہری شہریت بارے معلوم کریں بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
دوہری شہریت
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سندھ حکومت کے وکیل سے سوال کیا ہے کہ اے ڈی خواجہ سے کیوں پریشان ہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کھل کر کہتا ہوں کوئی پریشانی نہیں۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت کی جس میں سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کوئی پریشانی نہیں تو اس کیس کودوسال کیلئے ملتوی کردیتے ہیں۔کیا ہمارے پاس اختیار نہیں کہ پارلیمنٹ کی جانب سے آئین کے برخلاف بنائے قوانین کو کالعدم کر سکیں؟،کیا بنیادی حقوق سے متصادم قانون کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا؟ جنہیں قانون کاعلم نہیں وہ بھی عدلیہ کے اختیار پربات کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو ہم بھی سپریم مانتے ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آپ سماعت ملتوی کردیں ٗمیں قانون کی بات کررہا ہوں۔ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر قدغن نہیں لگا سکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں اہم عہدوں پر افسران کی تقرری کی میعاد3 برس ہے، لگتا ہے سندھ ہائیکورٹ نے یکسانیت پیدا کرنے کیلئے آئی جی کی مدت بھی3سال کردی۔ آئی جی کو صوبائی حکومت کے کہنے پرہٹا دیاجائے صوبے کے مفادمیں ہوگا؟ انہوںنے کہاکہ پولیس کا کام کسی سیاسی مداخلت کے بغیر ہونا چاہیے۔ ہم یہ بات نہیں مان سکتے کہ آپ جب چاہیں آئی جی کا تبادلہ کردیں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پولیس کے حوالے سے 4قوانین ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے موقع ملا تو پولیس کا یکساں قانون ہوگا۔ 1861کا قانون آپ نے ریوائز کردیا۔اس موقع پر سندھ حکومت کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا درخواست گزار نے پولیس ایکٹ 2011 کو کالعدم قرار دینے اور پولیس ایکٹ 2002 کو بحال کرنے کی استدعا کی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے درخواست گزار کی استدعا سے بالاتر ہوکر ریلیف دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ عدالت کی صوابدید ہے جو مناسب ریلیف دے، 1861 کے قانون کو 2011 کے قانون کے ذریعے بحال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ سندھ حکومت پولیس کیلئے نیا قانون بنائے۔ پورے پاکستان کی پولیس کیلئے یکساں قانون ہوناچاہیے، ایک قانون ہو جس کا اطلاق تمام صوبوں کی پولیس پر ہو جبکہ سندھ حکومت پولیس قانون میں جدت لائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پورے پاکستان میں پولیس کا یکساں قانون نہ ہونا آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ آئی جی کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے تو پولیس ڈسپلن کو کیسے برقرار رکھیں گے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا آرٹیکل 199 کے اختیار کو آرٹیکل 175 کے ساتھ پڑھاجائے۔ ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں اور ہائیکورٹ استدعا سے بالاتر ریلیف نہیں دے سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ بنیادی حقوق کی عملداری کے حوالے سے ہدایات دے سکتی ہے، ہائیکورٹ آرٹیکل 199 کے مقدمہ میں بنیادی حقوق کی عمل داری کے احکامات دے تو اعتراض کا جواز نہیں تاہم لوگوں کوہم پرشک ہوجاتاہے، عدالتی فیصلے ہونے بھی ہیں اور ہمارے فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہوناہے۔ عدالت صوبائی اسمبلی کو قانون سازی سے روک نہیں سکتی جبکہ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، قانون مجاز اتھارٹی سے منظور ہوجائے توعدلیہ جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فیڈریشن کا مطلب ایک دوسرے کے تعاون سے نظام چلانا ہے۔ دہائیاں گزر گئیں مشترکہ مفادات کونسل کو طاقتور ادارہ نہیں بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے آج تک کل کتنے اجلاس ہوئے؟ جس طرف آپ کی دلیل جارہی ہے ہمیں دیگر صوبوں کو نوٹس جاری کرنا پڑے گا۔ وفاق اور صوبے کے مابین تنازعہ پر آرٹیکل 1/184 کے تحت صوبوں کو سننا پڑتا ہے۔ آپ کی دلیل پر ہوسکتا ہے لارجر بنچ بنانا پڑے۔ میرے ساتھ بیٹھے ساتھی ججز کا تعلق پنجاب سے ہے معاملہ اس طرف گیا تو طوالت اختیار کرسکتا ہے۔ بطور چیف جسٹس میرا تعلق کسی صوبے سے نہیں ہے۔