ایسی عاجلانہ حکومتی پالیسیاں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہبازشریف کی کامیابیوں کا سفر بھی کھوٹا کرسکتی ہیں
عام انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانیوالی حکمران مسلم لیگ (ن) کا عوام پر مسلسل ساتویں بار پٹرول بم
آئندہ انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانیوالی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عوام کو ساتویں بار پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کا تحفہ دے دیا ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی حکومت نے اوگرا کی جانب سے بھجوائی گئی پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی سمری معمولی ردوبدل کے ساتھ گزشتہ روز منظور کرلی جس کا رات 12 بجے کے بعد اطلاق بھی ہوگیا اور پٹرول بم گرنے سے عوام کی چیخیں نکلنے لگیں۔ وفاقی وزارت خزانہ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کے نرخوں میں تین روپے 56 پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پٹرول کے نرخ فی لٹر 88 روپے سات پیسے ہوگئے ہیں۔ اسی طرح ڈیزل کے نرخوں میں دو روپے 62 پیسے فی لٹر اضافہ ہوا ہے چنانچہ اب ڈیزل کی قیمت فی لٹر 95 روپے 83 پیسے تک پہنچ گئی ہے جبکہ گیس کی سہولت سے محروم عام آدمی پر مٹی کے تیل کے نرخوں میں 6 روپے 28 پیسے فی لٹر کا مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے جنہیں اب مٹی کا تیل 70 روپے 18 پیسے کے بجائے 76 روپے 46 پیسے میں دستیاب ہوگا۔ اسکے علاوہ لائٹ ڈیزل کے نرخوں میں بھی ایک روپے فی لٹر کا اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کے صرف نرخوں میں اضافہ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان پر عائد جنرل سیلز ٹیکس میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے جو بالترتیب 10 فیصد اور 95 فیصد ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سات ماہ سے ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ ان پر جی ایس ٹی میں بھی اضافہ کیا جاتا رہا ہے جس کا مقصد ریونیو ہدف پورا کرنا بتایا جاتا ہے۔ اسکے باوجود متعین کئے گئے ریونیو اہداف پورے نہیں کئے جاسکے جبکہ وسائل سے محروم پسے پسماندہ طبقات پر مہنگائی در مہنگائی کا بوجھ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ اپوزیشن کے قائدین عمران خان‘ بلاول بھٹو زرداری‘ سینیٹر سراج الحق‘ لیاقت بلوچ اور دوسرے قومی سیاسی قائدین نے حکومت کے پٹرولیم نرخوں میں مسلسل اضافے کے اقدام کو عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ عوام کے درد میں صبح و شام کراہنے والا نااہل ٹولہ عوام کو ہی سزا دے رہا ہے۔ دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کو گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کردیا گیا ہے۔
اس وقت جبکہ ملک میں 2018ء کے عام انتخابات کا پراسس شروع ہوچکا ہے اور حکمران پارٹی اور اسکی قیادت پہلے ہی اپنے قائد نوازشریف کی حکومتی اور پارٹی عہدوں کیلئے نااہلیت اور نیب کے مقدمات کے باعث سخت آزمائش میں ہے‘ حکومت کیلئے ضروری تھا کہ وہ اپنے اقتدار کے باقیماندہ چند ماہ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی پالیسیاں طے کرتی اور ان پر مہنگائی کا بوجھ لادنے سے بہرصورت گریز کرتی تاہم حکومت کی جانب سے بے جگری کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اپنی آزمائش کے انہی دنوں میں اضافے کا تسلسل برقرار رکھا گیا ہے۔ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ یا تو حکومتی صفوں میں میاں نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز کے سیاسی بیانیئے سے عوام میں پیدا ہونیوالی ہمدردی کے باعث کچھ زیادہ ہی خوداعتمادی پیدا ہوگئی ہے یا وہ سودوزیاں سے بے نیاز ہو کر عوام کو زندہ درگور کرنے کی راہ پر گامزن ہیں جبکہ انتخابات کیلئے عوام کے پاس جاتے ہوئے عوام کش پالیسیاں وضع کرنا عملاً اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق حکومت نے پٹرول کے نرخوں میں اتار چڑھائو سے ساڑھے چار سال میں 300 ‘ ارب روپے کمائے ہیں جبکہ لیوی ٹیکس سے 25‘ ارب روپے اکٹھے کئے گئے۔ اس ساڑھے چار سال کے عرصے میں 21 بار پٹرولیم منصوعات کی قیمتیں برقرار رکھی گئیں اور 14 بار کم کی گئیں جبکہ گزشتہ سات ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔ اس عرصہ میں شامل دو ماہ کے دوران پٹرولیم نرخوں میں ہر پندرہ روز بعد اضافہ کیا گیا جس کے باعث مہنگائی کا عفریت عوام کو نگلنے کے درپے ہے کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کے ساتھ ہی روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء کے نرخوں میں بھی بے بہا اضافہ ہو جاتا ہے جسے کنٹرول کرنے کیلئے کوئی حکومتی مشینری آج تک کارگر نہیں ہو سکی۔ اسی بنیاد پر اپوزیشن نے جو مختلف دیگر ایشوز پر حکومت مخالف تحریک چلانے کیلئے پر تول رہی تھی‘ اب پٹرولیم نرخوں میں اضافہ کیخلاف عوامی تحریک کیلئے صف بندی کرلی ہے اور اپوزیشن کی دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین پٹرولیم نرخوں میں اضافے کو عوام پر ڈرون حملہ کے مترادف قرار دے کر احتجاجی تحریک کیلئے عوام کو سڑکوں پر آنے کی کال دے رہے ہیں۔ انکے بقول مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملک اور قوم کیلئے عذاب کی شکل اختیار کرچکی ہے اور غریب مکائو ایجنڈے پر گامزن ہے جبکہ حکمرانوں کے مظالم اور دہشت گردی میں اب کوئی فرق نہیں رہ گیا کیونکہ یہ دونوں ہی عوام کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ روایت ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بنی رہی ہے کہ انتخابات میں اقتدار کیلئے مینڈیٹ حاصل کرنیوالی جماعت اقتدار کے ایوانوں میں آکر عوام کے ان مسائل کی جانب سے آنکھیں بند کرلیتی ہے جن کے حل کے بلندبانگ دعوے اور وعدے کرکے انتخابی مہم کے دوران عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جاتی ہیں۔ جب اقتدار کا آخری سال آتا ہے تو حکمران طبقات اپنے پروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے عوام کی فلاح کے منصوبوں پر توجہ مبذول کرلیتے ہیں اور عوام کو ریلیف دینے کی پالیسیاں طے کرلی جاتی ہیں تاکہ اس ریلیف کی بنیاد پر ان کیلئے دوبارہ عوام کے پاس جانا آسان ہوسکے۔ اس تناظر میں موجودہ حکومت سے بھی یہی امید تھی کہ وہ کم از کم انتخابات کے سال کے دوران غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری جیسے گمبھیر مسائل میں عوام کو ریلیف دینے کی ضرور پالیسیاں طے کریگی کیونکہ حکمران مسلم لیگ (ن) نے تو 2013ء کے انتخابات میں لوڈشیڈنگ کے خاتمہ‘ مہنگائی میں کمی اور بے روزگار نوجوانوں کیلئے روزگار کی فراہمی جیسے بلندبانگ دعوے کرکے عوام کی ہمدردیاں حاصل کی تھیں اس لئے انکے ساتھ عوام کی توقعات نسبتاً زیادہ وابستہ ہوئیں۔ حکومت کو اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی بنیاد پر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی طویل دھرنا تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا نتیجتاً اسے یہ جواز پیش کرنے کا موقع مل گیا کہ اسے کام کرنے ہی نہیں دیا جارہا۔ پھر پانامہ لیکس کے ایشو نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک ہی نہیں‘ پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی‘ اے این پی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کو بھی حکومت مخالف تحریک کیلئے منظم ہونے کا موقع فراہم کردیا جبکہ حکومت نے نیوز لیکس اور ختم نبوت کے حلف نامہ جیسے معاملات کھڑے کرکے اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک کیلئے منظم ہونے کا خود بھی موقع فراہم کیا۔ اسی طرح سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی اداروں کے ساتھ محاذآرائی والی پالیسی سے آئندہ انتخابات کیلئے مسلم لیگ (ن) کی راہ اور بھی مشکل بنا دی گئی ہے۔
اس فضا میں توقع یہی تھی کہ حکومت کم از کم انتخابات کے سال کے دوران توانائی کا بحران حل کرکے‘ مہنگائی کم کرکے اور عوامی فلاحی منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچا کر اگلے مینڈیٹ کیلئے عوام کے پاس جانے کے قابل ہو جائیگی۔ اس سلسلہ میں موسم سرما کے آغاز نے حکومت کو سہارا دیا اور بجلی کی کھپت کم ہونے سے حکومت کو لوڈشیڈنگ پر قابو پانے میں مدد ملی۔ اسی بنیاد پر توانائی کے وفاقی وزیر سردار اویس لغاری نے عوام کو لوڈشیڈنگ سے مستقل نجات دلانے کا دعویٰ کیا جو موسم بہار کے آغاز ہی میں شہری اور دیہی علاقوں میں چار سے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع کرکے حکومت نے خود ہی جھٹلادیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے شروع کردہ اورنج لائن ٹرین اور اس جیسے دوسرے منصوبوں پر بے شک تیزی سے کام جاری ہے جن کی انتخابات سے پہلے تکمیل کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کیلئے عوامی ہمدردیوں کی فضا ہموار ہو سکتی ہے مگر پٹرولیم منصوعات کے نرخوں کا معاملہ ایسا بن گیا ہے کہ اس میں عوام کو ریلیف دینے کے بجائے گزشتہ سات ماہ سے انہیں مسلسل مہنگائی کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے۔ اس کیلئے یہ عذر عوام کو کسی صورت قبول نہیں ہو سکتا کہ عالمی مارکیٹ میں بھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔
عالمی مارکیٹ میں تو اس وقت بھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ 60 ڈالر فی بیرل سے کم ہیں جبکہ چار سال قبل عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم نرخ گرتے گرتے 40 ڈالر فی بیرل تک آگئے تھے۔ یہ نرخ تقریباً دو سال تک برقرار رہے اور جب نرخوں میں اضافہ شروع ہوا تو اسکی شرح بھی انتہائی معمولی رہی۔ اگر اس چار سال کے عرصہ کا پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو حکومت کی یہ دلیل انتہائی بودی لگتی ہے کہ یہاں عالمی نرخوں کے حساب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ چار سال قبل حکومت دھرنا تحریک کے باعث سخت دبائو میں تھی اسکے باوجود اس نے عوام پر پٹرولیم بم چلانے سے کبھی گریز نہ کیا اور عالمی مارکیٹ میں نرخ کم ہونے کے عرصے کے دوران ہمارے ملک میں یا تو نرخ ہر ماہ بڑھائے جاتے رہے یا برقرار رکھے جاتے رہے۔ چنانچہ حکومت کی اس پالیسی کے باعث ہی اسے چار سال کے دوران پٹرولیم مصنوعات سے تین سو ارب روپے کا منافع ہوا۔ اسکے برعکس جس عرصہ کے دوران عوام کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کی صورت میں یہ ریلیف دینے کے دعوے کئے گئے اس عرصہ میں پٹرولیم مصنوعات پر عائد جی ایس ٹی میں ظالمانہ اضافہ کرکے عوام کو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف دیئے گئے اس ریلیف سے بھی مستفید ہونے سے محروم کردیا گیا۔
یہ حکومتی بے تدبیریوں کا ہی شاخسانہ ہے کہ پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے ساتھ ہی ریلوے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخ بھی آسمان سے بات کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح پٹرولیم نرخوں میں اضافہ سے عوام کیلئے مہنگائی کے نئے پہاڑ کھڑے ہو جاتے ہیں جن سے وہ سر ٹکرانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کے اقتدار کے موجودہ چار سال آٹھ ماہ کے عرصے کا جائزہ لیا جائے تو اس عرصہ کے دوران روزمرہ استعمال کی تقریباً تمام اشیاء کے نرخوں میں چار گنا تک اضافہ نظر آئیگا۔ اگر حکمران پارٹی انتخابات کے سال کے دوران بھی عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے اور اسکی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث مہنگائی کا عفریت مزید توانا ہوگیا ہے تو وہ درپیش دیگر چیلنجوں کے ساتھ ساتھ قابو سے باہر ہوئے مہنگائی کے جن کو بھی انگلی سے لگا کر عوام کے پاس کس بنیاد پر جا پائے گی اور کیسے سرخرو ہو پائے گی۔ گزشتہ ماہ میاں نوازشریف نے اوگرا کی سمری کی منظوری کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی مشاورت کے ساتھ مشروط کیا تھا جبکہ اب میاں شہبازشریف حکمران مسلم لیگ (ن) کے سربراہ بھی بن چکے ہیں اس لئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے سے پیدا ہونیوالا سخت عوامی ردعمل ان کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ کہیں عوام کے اندر ان کیخلاف غم و غصہ بڑھانے کیلئے تو ایسی عاجلانہ پالیسیاں اختیار نہیں کی جارہیں۔ اگر یہ پالیسیاں برقرار رہیں تو پھر آئندہ انتخابات میں عوام مسلم لیگ (ن) کو بھی پیپلزپارٹی کے انجام سے دوچار کرکے اسے قصۂ پارینہ بنا دینگے جبکہ اس سے عوامی فلاحی منصوبوں میں میاں شہبازشریف کی کامیابیوں کا سفر بھی کھوٹا ہو سکتا ہے۔