• news
  • image

بنی گالہ کا این او سی اور نقشہ مبینہ طور پر جعلی و غیر قانونی

سپریم کورٹ میں بنی گالہ غیر قانونی تعمیرات کیس میں رپورٹ جمع کروا دی گئی جس میں سابق سیکرٹری یو سی بہارہ کہو محمد عمر نے عمران خان کے بنی گالہ کے گھر کے این او سی کو مبینہ طور پر جعلی قرار د ے دیا۔ محمد عمر کے بیان میں کہا گیا کہ اس وقت یونین کونسل کے دفتر میں کمپیوٹر کی سہولت ہی موجود نہیں تھی۔ اس دور میںچیئرمین یونین کونسل رہنے والے محمد یعقوب ملک نے بھی کہا کہ میں نے نہ تو عمران کی زمین کا نقشہ پاس کیا اور نہ ہی کوئی این او سی جاری کیا۔
مریم نواز نے بنی گالہ جائیداد کی دستاویزات جعلی نکلنے کے ردعمل میں ٹویٹ پیغام میں طنز کیا ہے کہ ’’ماشاء اللہ صادق اور امین!‘‘ اسی لئے نوازشریف نے صادق اور امین قرار دینے والوں کو سلیوٹ کیا تھا۔
اسلام آباد کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے مئی 2017 کو سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی جس میں بنی گالہ کی 122 عمارتوں کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔ ان عمارتوں میں عمران خان کا گھر بھی شامل تھا۔ اب سابق یو سی چیئرمین اور سیکرٹری کے انکشافات پر پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری نے کہا ہے کہ گھر بنانے کے 14 سال بعد اب ڈی سی آفس کو یاد آیا کہ عمران خان کا تو این او سی ہی نہیں تھا۔ انہوں نے ہر کام قانون کے مطابق کیا۔ چودہ سال گزرنے سے کوئی غیرقانونی کام قانونی نہیں ہو جاتا۔ سب سے بڑی چیز جگہ کی قیمت ہوتی ہے۔ وہ ادا کر دی گئی اور رجسٹری ہو گئی۔ چھوٹی موٹی بے قاعدگی سے بھی صرف نظر کیا جا سکتا ہے مگر یہاں معاملہ چھوٹی موٹی بے قاعدگی کا نہیں‘ جعل سازی کا ہے۔ سیکرٹری کہتے ہیں اس دور میں دفتر میں کمپیوٹر کی سہولت موجود نہیں تھی۔ جبکہ این او سی کمپیوٹرائزڈ ہے اور یو سی چیئرمین کہتے ہیں کہ نقشہ اور این او سی ٹیمپر کیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی میں پیش کی جانے والی دستاویزات میں سے ایک کو ٹمپر قرار دیا گیا تھا کہا گیا کہ اس دور میں کیلبری فونٹ ایجاد نہیں ہوا تاہم اب ایک گواہ ریڈلے نے تصدیق کر دی ہے کہ 2005 میں کیلبری فونٹ ایجاد ہو چکا تھا۔ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی دستاویزات میں بھی بادی النظر میں کیلبری فونٹ کی طرح کی ٹمپرنگ کی گئی ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ جعل سازی ثابت ہونے پر یقیناً جعل سازی کرنیوالا صادق اور امین کے زمرے سے باہر ہوجانا چاہیے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن