حکومت اور افواجِ پاکستان کی شرعی حیثیت!
وطن عزیز پاکستان تقریباً 2 دہائیوں سے تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے کچھ لوگوں کو ورغلا کر یہ باور کرایا کہ پاکستان کی حکومت اور اس کا آئین و قانون غیر اسلامی ہے اور اس کی فوج پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے اس غیر اسلامی آئین اور حکومت کے مددگار اور معاون ہیں لہٰذا ان کیخلاف جنگ اور جہاد نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے اور اس میں جان دینا جنت کی ضمانت ہے۔ اس بیانیہ نے دہشت گرد اور خود کش حملہ آور پیدا کیے اور ملک میں تشدد اور لاقانونیت کو فروغ ملا ہے۔
حالات کی اصلاح کیلئے حکومت نے مختلف مراحل کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کیا جس میں فوجی افسروں اور جوانوں نے قابل تحسین کام کیا اور زبردست قربانیاں دیں۔ پھر ردالفساد کے نام سے ایک اور آپریشن شروع ہوا اور کاوشوں اور قربانیوں کی ایک نئی داستان رقم کی گئی
تاہم اس بات کی ضرورت تھی کہ ان کاوشوں کی نظریاتی سپورٹ کیلئے ایک قومی بیانیہ اور Counter Narrative کی شکل میں مضبوط بنیاد موجود ہو جو دہشت گردوں کے بیانیہ کا مؤثر توڑ کر سکے۔ یہ ضرورت بہت پہلے پوری ہو جانی چاہیے تھی اور اس کیلئے کچھ نہ کچھ کوشش بھی ہوتی رہی۔ بہرحال تمام مسالک کے نمائندہ وفاق المدارس بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی مشترکہ کوشش سے یہ متفقہ فتویٰ وجود میں آیا جو ہمارے National Narrative یا Counter Narrative کی بنیاد بنے گا اور اس کیلئے یہ تمام ادارے لائق تحسین ہیں۔
یہ فتویٰ ریاست پاکستان حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کی شرعی اور اسلامی حیثیت کو ثابت اور واضح کرتا ہے جہاد کے نام پر فساد کی روک تھام کرتا ہے اور طاقت یا بغاوت کے ذریعے نفاذ شریعت کی کوشش کی نفی کرتا ہے۔اس طرح یہ فتویٰ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کی طرف سے تشدد اور دہشت گردی پر قابو پانے اور پاکستان کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی ضامن ضرب عضب اور ردالفساد جیسی کوششوں کو شرعی واخلاقی جواز فراہم کرتا ہے۔ نیز یہ فتویٰ فرقہ وارانہ فساد اور بگاڑ کو روکنے اور بین المسالک ہم آہنگی پیدا کرنے کی بنیاد بھی بنتا ہے اس لیے پوری قوم کو اس متفقہ فتویٰ کی پزیرائی کیلئے ہم قدم اور ہم آواز ہو جانا چاہیے۔
وطن عزیز پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اور دستور اسلامی ہے۔ اسکے قیام کے مقصد کو قراردادِ مقاصد کی شکل میں آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے جس پر تمام دینی وسیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے۔ اسکی روشنی میں یہ بات دوٹوک الفاظ میں واضح کر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار واقتدار اسکی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا وہ ایک مقدس امانت ہے۔
اسکے باوجود بدقسمتی سے گذشتہ کئی سالوں سے چند عناصر نے شدت پسندی کا راستہ اختیار کیا غیر حکیمانہ طرزِ عمل سے سنگین غلط فہمیاں پیدا کیں اور اسلام کی غلط تعبیر سے حکومتی اداروں اور خاص کر پاک افواج کیخلاف مہم جوئی شروع کی۔ ان کا طرزِ عمل آئینی قانونی شرعی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں۔ یہ اپنے زعم میں اصلاح کا کام کرتے ہیں حالانکہ یہ اصلاح نہیں۔ قرآن حکیم ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتا ہے:
(وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ* اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِن لَّا یَشْعُرُوْنَ*) (البقرہ ایسے ہی قرآن کریم نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: (وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا) (الاعراف) … پھر قرآن حکیم نے ایسے فسادیوں کیلئے عبرتناک سزا بھی تجویز کی ہے۔ فرمایا: (اِنَّمَا جَزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَ اَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ … المائدہ)
پاکستان کے محب وطن ممتاز علماء کرام اور مفتیان عظام نے ہمیشہ مثبت اور صحیح راستہ اختیار کیا اور قرآن وسنت کی روشنی میں دو ٹوک فتوے صادر کیے۔ ایسے عناصر کی سوچ اور فکر کی نہ صرف مذمت کی بلکہ انکی کارروائیوں کو خلاف شرع قرار دیا۔ جس کی وجہ سے متعدد علماء کرام کو شہید بھی کیا گیا۔
آج وطن عزیز جس نازک دور سے گزر رہا ہے کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے تمام طبقات میں مکمل یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اتحاد واتفاق کے ساتھ ہی ہم وطن عزیز کو اس مشکل سے نکال سکتے ہیں۔ دشمن ہمیں کمزور کرنے کیلئے تمام حربے استعمال کر رہا ہے۔ جہاں سیاسی ومعاشی مسائل موجود ہیں۔ وہاں وہ مذہبی اور دینی مسائل کو ابھار کر قوم کو جذباتی بنا رہا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بیدار ہوں۔ تمام اداروں کو آئین کے متعین کردہ حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ آئین کی بالادستی قائم کرنی چاہیے اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔ امن وامان کے قیام کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ ہم حکومت اور مسلح افواج کی دہشتگردی کیخلاف کارروائیوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اس ضمن میں پیش کی گئی تمام قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت کرے شہداء کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور قیام امن کیلئے کی جانیوالی تمام کوششوں کو کامیاب کرے۔ آمین!
اور آخر میں خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے کے مصداق‘ میں امن وامان قائم کرنے کے ذمہ دار اداروں سے گذارش کروں گا کہ کسی دہشت گرد کو چھوڑیں نہیں اور کسی امن پسند کو چھیڑیں نہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سب کو اپنے ساتھ لینا چاہیے۔ افراد اور اداروں کو اجنبی نہ بنائیں۔ علماء اور مدارس کو خصوصی نشانہ پر نہ لیں۔ کسی کو تفتیش کیلئے لے جائیں تو اسکی مدت مقرر کریں اور دنوں نہیں تو چند ہفتوں میں ہی کام مکمل کریں۔ مہینے اور سال نہ لگائیں۔
خطبات وغیرہ کی آواز مساجد کی حدود تک رکھنے کا فائدہ تو ضرور ہے مگر اذان کی آواز کو ایک ہارن تک محدود کرنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہو گی۔ اسی طرح مساجد کی تعمیر کی اجازت ملنا محال ہو چکا ہے جبکہ ملک میں مسلمہ مسالک موجود ہیں اور مسلکی دستور میں انکی حیثیت تسلیم کی گئی ہے تو ایک مسلک کی مسجد ہوتے ہوئے آبادی میں دوسرے مسلک کی مسجد کی بھی گنجائش ہونی چاہئے البتہ انکے خطبات وغیرہ کی آوازیں ٹکرانے پر پابندی ہو سکتی ہے۔اسی طرح دینی و تدریسی طبقہ کیلئے مناسب گنجائش پیدا کریں وہ اس جنگ میں آپ کا ممد ومعاون اور نظریاتی سہولت کار اور آپ کیلئے دعا گو بھی ہو۔