• news

پریشان کرنے کی کوشش ہوئی واچ لسٹ پر آنے سے معیشت متاثر نہیں ہو گی : مشیر خزانہ

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ + نیوز ایجنسیاں) صدارتی خطاب پر قومی اسمبلی میں اظہارتشکر کی قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے تحریک کی مخالفت کی۔ صدارتی خطاب پر پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار تفصیلی بحث کے بغیر تحریک منظور کی گئی۔ صرف اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور مزید دو ارکان بات کر سکے۔ اپوزیشن جماعت نے صدارتی خطاب پر صدر ممنون حسین کا شکریہ ادا کرنے سے انکار کرتے ہوئے قرارداد کی مخالفت کی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چودھری کے بیان پر اپوزیشن احتجاجاً واک آﺅٹ کر گئی۔ طلال چودھری نے کہا فیصل سبحان ملتان میٹرو یا کسی کمپنی کا مالک نہیں‘ جو شخص چین یا پاکستان کو نہیں ملا‘ وہ عمران خان کو کیسے مل گیا؟ عمران خان روز جھوٹ بولتے ہیں‘ عمران خان کو بار بار نوٹس بھیجے‘ جواب نہیں دیتے۔ آئی این پی کے مطابق طلال چودھری نے کہا عمران خان ملتان میٹرو بس سروس میں کرپشن دیکھنے کیلئے کسی پیر سے استخارہ کرائیں‘ اب تو ان کو یہ سہولت گھر میں دستیاب ہے۔ ملتان میٹرو منصوبے میں چین اور پاکستان میں تحقیقات ہوئیں مگر کچھ نہ نکلا۔ پتہ نہیں جو کچھ چین اور پاکستان کو نہیں ملا وہ خان صاحب کو کہاں سے مل جاتا ہے۔ تحریک انصاف والے اپنی سیاست کا بدلہ پاکستان اور سی پیک سے لے رہے ہیں۔
قومی اسمبلی

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) مالی امور کیلئے وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے دعویٰ کیا ہے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے جون میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالنے کے اقدام سے پاکستان کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے نہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر متاثر ہوں گی اور نہ ہی پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جائے گا۔ چھ ماہ سے ایک سال کے اندر پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکل آئے گا۔ قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے انہوںنے عالمی ادارے کے مذکورہ اقدام کو امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ قرار دیتے ہوئے کہا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس امیر ملکوں کا کلب ہے جسے ہمارے مسائل کا کوئی ادراک نہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان کے انسداد منی لانڈرنگ قوانین نہایت سخت ہیں جبکہ دہشت گردوں کے مالی وسائل کی روک تھام کے قوانین بھی اچھے ہیں البتہ یہ ہو سکتا ہے ان قوانین کے نفاذ میںکوئی سقم رہ گیا ہو جنہیں دور کرنے کیلئے مزید اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے اس مو¿قف کا اعادہ کیا امریکہ کی طرف سے پاکستان کا معاملہ خلاف معمول اس ادارے میں اٹھانے کا مقصد اصلاح احوال نہیں بلکہ سیاسی وجوہ کے تحت پاکستان کو پریشان کرنا اور شرمندہ کرانا ہے۔ زبردستی پاکستان کے معاملہ کو ایجنڈے پر لانے سے ادارے کی روایات متاثر ہوئی ہیں اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کمزور ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا اس ادارے میں ملائیشیا سمیت صرف تین مسلمان ملک ہیں دیگر تمام ارکان یورپیممالک ہیں۔ ارکان قومی اسمبلی کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے قیام، اس کے اغراض و مقاصد اور پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس ادارے کا قیام 1989ءمیں جی سیون ممالک نے عمل میں لایا تھا جس کا بنیادی مقصد بین الاقوامی مالیاتی لین دین کی نگرانی کرنی تھی۔ پاکستان اس ادارے کا براہ راست رکن نہیں ادارے کے ایشیا بحرالکاہل گروپ کا رکن ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان کے متعلق کوئی بھی کارروائی اس گروپ کے توسط سے نمٹائی جانی چاہیے لیکن امریکہ نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں براہ راست یہ معاملہ اٹھا کر روایات کی پاسداری نہیں کی۔ ادارے کا رکن ایک ملک، آزادانہ طور پر پاکستان کی رپورٹوں کا جائزہ لیتا ہے۔ اس بار یہ ذمہ داری کینیڈا کے حصہ میں آئی جس نے کہا پاکستان نے اچھی پیشرفت کی ہے لیکن بعض شعبوں میں کارکردگی بہتر بنانے کی گنجائش ہے۔ انہوں نے بعض ارکان کی طرف سے پاکستان کی حمایت نہ کرنے والے ممالک کے شہریوں کو پاکستان آمد پر ویزا نہ دینے اور دیگر سہولیات واپس لینے کی تجویز کی مخالفت کی اور کہا یہ ایک منفی اقدام ہوگا۔ ہمیں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہیے اور ملک میں زیادہ سرمایہ کاری لانے کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ پالیسی بیان سے پہلے تحریک انصاف کی ایم این اے ڈاکٹر شیریں مزاری نے مطالبہ کیا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے پاکستان کے حوالے سے اقدامات پر ایوان کو بریفنگ دی جائے جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل ایوان میں بریفنگ دیں۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر نے کہا کہ دہشتگردوں کی مالی سرپرستی کے انسداد کے لئے ٹھوس اقدامات ضروری ہیں۔ جے یو آئی (ف) کی رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور خان نے کہا پاکستان کو ایک جامع خارجہ پالیسی بنانے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں بیان اور نجی ٹی وی سے گفتگو میں مشیر خزانہ نے کہا پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 15 ممالک نے ہماری بھرپور مخالفت کی۔ مخالفت کے بعد ہمیں پتہ چل گیا تھا ہمارے خلاف فیصلہ آئے گا۔
مشیر خزانہ

ای پیپر-دی نیشن