ادارے ہمارا کام ہاتھ میں لیں گے تو قانون سازی کرنا پڑے گی: وفاقی وزیر
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ ایجنسیاں) وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ انتظامی اختیارات پارلیمان اور حکومت کا حصہ ہیں۔ اس کو اگر کوئی دوسرا ادارہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے گا تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے، نواز شریف کو برطرف کرنے سے سی پیک منصوبے سمیت ملک میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری شدید متاثر ہوئی ہے‘ مشکل ترین حالات میں بھی حکومت اپنے تجربے کے بل بوتے پر ملک کو آگے بڑھا رہی ہے‘ عدلیہ ‘ انتظامیہ اور مقننہ کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں‘ اگر ریاستی ادارے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کریں گے تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مشاہد اللہ خان نے کہا کہ حکومت کے پہلے دن سے ہی مختلف حیلے بہانوں سے مسائل کھڑے کئے گئے اور حکومت کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ کبھی دھرنے دیئے گئے اور کبھی کینیڈا سے لوگوں کو بلوایا گیا‘ یہ ساری صورتحال قوم کے سامنے ہے۔ اس وقت ملک میں احتساب کا دور ہے اور احتساب ہونا بھی چاہیے۔ قائداعظم محمد جناح‘ لیاقت علی خان اور فاطمہ جناح کا احتساب ہوا لیکن کسی نے غلام محمد خان کا احتساب نہیں کیا۔ ملک کے آئین کو توڑنے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔ اگر اس ملک میں جسٹس کیانی اور جسٹس کارنیلس جیسے ججز تھے تو جسٹس منیر بھی عدلیہ میں شامل رہے ہیں۔ محمد نواز شریف نے اس ملک کو جو کچھ دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ میرا سوال اس پارلیمان سے یہ ہے کہ گورننس کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے یا کسی اور کے پاس ہے۔ عوام نواز شریف کے حوالے سے فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہے۔ اگر ہمارا کام اپنے ہاتھوں میں لیں گے تو اس پر قانون سازی کرنا پڑیگی،گورننس سے روکا جاتا ہے پھر کہتے ہیں کہ گورننس نہیں ہے، آپ نے ایک ٹرین کو روکا، پھر پوچھتے ہیں کہ مسافر پریشان کیوں ہیں؟ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا بھی احتساب ہوا اور مادر ملت کا بھی لیکن جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوا جنہوں نے اینٹ سے اینٹ بجادی، جسٹس کیانی بھی جج تھے اور جسٹس منیر بھی جج تھے، ایسے ججز بھی تھے جن کا نام نہیں لینا چاہتا۔ ایوان میں حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ پر اپوزیشن اور حکومت کے اتحادی جماعتوں کے ارکان نے احتجاج کیا اور اضافہ کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کے اہداف امراء کی بجائے غریبوں سے پورے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل نے پی پی پی کے توجہ دلاؤ نوٹس اور دیگر ارکان کی طرف سے نکات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پٹرول کی قیمت کو کم رکھنے کیلئے حکومت کو سبسڈی دینا پڑے گی جبکہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دینا حکومت کی پالیسی نہیں۔ پی پی پی کے رکن نوید قمر نے کہا کہ جب بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہوئی تو سیلز ٹیکس میں اضافہ کیا گیا۔ اس وقت کہا گیا کہ تیل کی قیمت میں اضافہ پر سیلز ٹیکس میں کمی لائی جائے گی۔ اس وقت ڈیزل پر زیادہ سیلز ٹیکس سے کاشتکاروں اور عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایف بی آر کو تیل پر ٹیکس میں اضافہ کی بجائے دیگر ذرائع پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ جے یو آئی کی رکن آسیہ ناصر نے کہا کہ تین چار ماہ سے مسلسل پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایوان میں گزشتہ روز قرضوں کی وصولی کے متعلق قانون کی کمزوری اور قرضوں کی معافی کے معاملہ کی بازگشت سنائی دی۔ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ 50 ہزار قرض نادہندگان کے معاملات زیرالتواء ہیں جن کے پاس مقدمات زیرالتواء ہیں انہیں بھی کردار ادا کرنا چاہئے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے قرضوں کی وصولی کے قانون میں سقم اور معاف کردیئے گئے قرضوں کے بارے میں ایشو کو قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کو بھیج دیا اور ہدایت کی کہ اس کی تحقیق کر کے 15 دن کے اندر رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے۔ رکن قومی اسمبلی رانا محمد حیات خان نے توجہ دلاؤ نوٹس میں اس ایشو کو اٹھایا تھا۔ وزیرمملکت نے کہا کہ نادہندگان کے 50 ہزار مقدمات عدالتوں میں زیرالتواء ہیں۔ ان مقدمات کی فوری پیروی سے بینکوں کی رقم واپس آ سکتی ہے۔ حکومت قرضہ معاف نہیں کرتی۔ قرضوں کی وصولی کے لئے 2001 ء کا قانون موجود تھا۔ بینکوں کو اختیار تھا کہ وہ رہن رکھی جائیداد کو فروخت کر سکتے ہیں۔ مگر سپریم کورٹ نے اس قانون کو ختم کر دیا۔ حکومت نے اب یہ حق بینکوں کو واپس دیدیا ہے۔ رانا محمد حیات خان نے کہا کہ قرضہ معاف کرانے والے خود کو دیوالیہ ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم کی اربوں روپے کی لوٹی رقم واپس لانے میں ہمیں کردار ادا کرنا چاہئے۔ وفاقی وزیر امور کشمیر چودھری برجیس طاہر نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی جماعت ہے جس کو سینیٹ میں الیکشن حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔