ایک قومی المیہ…!
اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس میں حصول ِ علم کی کاوش کو باضابطہ و با قاعدہ بنا دیا گیا اور پھر اسے پنگھوڑے سے لحد تک لازم قرار دے کر کسی خاص عمر کی بندش سے غیر مشروط بنا دیا گیا۔ دنیائے مذاہب میں اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ جس میں حصول علم کو معاشرتی و سماجی اعتبار سے فرض قرار دے دیا گیا۔ اصل میں کسی بھی ریاست میں فروغِ تعلیم وعوام کی تعلیمی سہولتوں کی یکساں فراہمی کی ذمہ داری عنان حکومت سنبھالنے والوں پہ آتی ہے اور حکومتی نمائندوں کے علاوہ سرکاری سطح پہ موجود حکام اعلیٰ تعلیمی مسائل حل کرنے اور تعلیمی ترقی و عوامی مواقع پیدا کرنے کے عمل کو ایک مربوط نظام کے تحت چلانے، مانیٹر کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ کسی وقت انگلستان کا نظامِ تعلیم پوری دنیا میں مقبول تھا اور ایک مخصوص یو کے نیٹ ورک سسٹم کے تحت عالمی برادری کوانگریز کے تعلیم سسٹم میں فٹ کیا جاتا تھا۔ اس وقت بھی کیمبرج سسٹم آف ایجوکیشن کی پوری دنیا میں جڑیں موجود ہیں تاہم اکسفورڈ و ہاورڈ کے علاوہ آسٹریلوی جہتیں بھی عالمی برادری کو اپنے سسٹم میں ڈھالنے میں مصروف ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشین اور جرمن سسٹم آف ایجوکیشن کو بھی پذیرائی ملنا شروع ہو چکی ہے۔ جناب کوریا کا سسٹم آف ایجوکیشن بھی ورلڈ ریسرچ فار سوشل اینڈ ٹیکنیکل فورم پر سراہا جا رہاہے۔ قارئین! یہ صرف پانچ سال قبل کی بات ہے کہ پاکستان کی طرف سے تعلیمی ماہرین کا ایک وفد کوریا کے دورے پہ گیا اور وہاں کی وزارتِ تعلیم سے کورین سسٹم آف ایجوکیشن کی بابت سوال ہوا، کورین وزارتِ تعلیم نے جو کچھ بتایا اس پر بحیثیت پاکستانی ہم سب کو فخر ہے کہ کوریا کا نظام تعلیم پاکستان سے مستعار لیا گیا تھا۔ اس وقت ہمارا نظامِ تعلیم ’’رٹو طوطے‘‘ پیدا کرنے والا یا کلرکس پیدا کرنے والا نہیں رہا بلکہ جدید دور کے جدید تقاضوں کے پیشِ نظر ہم اپنے نصابِ تعلیم و نظام تعلیم اور مضامین تعلیم میں جدت بھی دیکھ رہے ہیںاور تعلیمی امنگوں کو موضوعی و معروضی دونوں طرح کے سسٹم میں سموبھی رہے ہیں۔ ہاں تو بات کوریا کی ہو رہی تھی، کوریا نے سسٹم آف ایجوکیشن ہم سے مستعار لیا کا مطلب ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم اپناکر آج کوریا کا تعلیمی ریشو 93.6% اور تکنیکی مہارت کا ریشو 98.8% ہے۔ کورین مہذب بھی ہیںاور متمدن بھی، دیکھا جائے تویہ سب تعلیمی پالیسیوں پہ عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ حقیقت ِ حال جان کر دانتوں تلے زبان آنے لگتی ہے کہ ہماری تعلیمی ترقی کو کیا ہواکہ ہمارا ایجوکیشن ریشو 2015-16 میں صرف 45% نوٹ کیا گیا اورستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے فنونِ لطیفہ و طب و انجینئرنگ و الائیڈ سائنسز کے ماہرین بیرون ملک خدمات دینے میں زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ اصل میں ہمارے اعلیٰ حکام اچھی پالیسیوں، نظام و قوائد و ضوابط سے لیس تو ہیں مگر ہماری بدقسمتی کہ ہم عملی طور پر کمزورو ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔کوریا ہمارے ہی سسٹم کو عملی طور پر اپناتا ہے اور ایجوکیشنل فیلڈ میں ہم سے آگے آ جاتا ہے۔ مجھے اپنے وطن سے محبت ہے میں اپنے وطن کے مستقبل کا سورج ایک نئی روشنی، نئی گرماہٹ اور نئی خوش آئند صبح کے ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں میں جانتی ہوں کہ ہمارا روشن مستقبل ہماری نسل نو ہے اور نسل نو کا روشن مستقبل حصول علم میں ہے اپنے مستقبل کی بہتری کے لیے ہمیںاپنا سسٹم بدلنا ہوگا جو ہمیں ذاتی فائدوں کا شعور تو دے لیکن من حیث المجموعی قوم کے مفاد کے حق میں شعور کو مہمیز کر دے اور ہمیں ڈھونگی بنا دے، ہمیں ایسے مرئی نظام سے بچنا ہے کہ جو ہمارا اجتماعی کردار محاذ آرائی، لگائی بجھائی اور ٹانگ کھنچ سکیموں میں تو متحرک کر دے لیکن اداروں اور قوموں کی تشکیل کے بنیادی امور میںصفر کر دے۔ تعلیمی اداروں میں تو محاذ آرائیوں کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہونی چاہئے اور جو کردار ہمارے سسٹم میں اپ ٹو باٹم اپنی ذمہ داریوں کا ہے ہمیں وہی نبھانا چاہئے اور یہ اصل میں ہمارے احسن اور تعلیمی اداروں کا وقار ہے۔ اساتذہ کے احترام کی وجہ کا ایک بہت بڑا جواز یہ بھی ہے کہ ہمارے نبی احمد مجتبیٰ ﷺ تو خود معلمِ اعظم بنا کر معبوث فرمائے گئے لہٰذا استاد ہونا تو خود ایک اعزاز ہے۔ میں خود بھی استاد ہوں اور استاد ہونے پر فخر کرتی ہوں۔ اب میں ایک ادارے کی منتظمہ بھی ہوں، گویا استادوں کی بھی استاد ہوں۔ میں نے اپنے ماتحت اساتذہ کو ہمیشہ ڈسپلن میں رہنے اور فرض شناسی کی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ خود اس پہ عمل کرکے انہیں تربیت بھی دی ہے۔ میں اپنے اعلیٰ حکام کی توصیف بیان کیے بغیراس لئے نہیں رہ سکتی، انہوں نے ایک ایسے ادارے کو جو بالکل برائے نشان ادارہ بن کر رہ گیا تھا، اسے تعلیمی ماحول و تعلیمی ترقی سے آباد کرنے میں پرخلوص ہو کر میرا ساتھ دیا۔ ہمارے احباب و بست و کشاد کی قیادت سچی اور دیانتدار رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ جو کام ہم نے اپنے حصے کا کرنا تھا وہ کہیں نہ کہیں مسنگ ہو رہا تھا۔ وگرنہ لاہور کو چھوڑ کر دور دراز علاقوں کے چھوٹے چھوٹے قصبوں اور گائوں کے تعلیمی اداروں کی حالت ایسی نہ ہوتی۔ حکومت و ہمارے حکام… آئیے روز کی سچی جھوٹی انکوائیریز کریں یا ترقیاتی امور اور روٹین کے فرائض انجام دیں، بہرحال ہماری تعلیمی ترقی ہمارے تعلیمی ماحول سے مشروط ہے۔ محاذ آرائی کی بجائے فرض شناسی کا ماحول ہم نے پیدا کرنا ہے۔ جیسے جیو اور جینے دو کی اچھی بات ایک دوسرے کے امن و سکون کا باعث ہے۔ اسی طرح کام کریں اور کام کرنے دیں کی اچھی بات بھی ہمارے مجموعی تعلیمی ماحول کے لئے اکسیر ہے وگرنہ ہر اچھا سربراہ تو اپنے ادارے کا کام چلانے کے لئے کام کرنے والوں کو ہی عزت بخشے گا خواہ اوہ آپ کا چوکیدار ہی کیوں نہ ہو۔ استاد وہ ہے جو کتاب پڑھائے لیکن اپنے کردار میںوہ خود بھی ایک چلتی پھرتی کتاب ہو…؟ راست گوئی، ایمانداری، محنت کی عظمت یہ کتابی اسباق نہیں یہ تو استاد کے کردار کے تانے بانے ہیںکہ جس سے شاگرد براہِ راست سیکھتا ہے ۔ مگر آج ہمارا ایسا قومی مجموعی کردار کہاں ہے؟ ہمارے سرکاری اداروں کو ناکام کر کے نجی اداروں کے مخصوص مافیا کے پھلنے پھولنے کا باعث کوں بنا؟ وگرنہ عوام کا اعتماد عمومی طور پر کم خرچ تعلیمی سہولتوں سے مزین سرکاری اداروں پہ ہی ہونا چاہئے تھا۔ سرکار نے ہمیں بلڈنگز، فرنیچر، ٹرانسپورٹیشن اور ماہانہ اعزازیے دیئے اور نہ جانے کیا کیا دیا؟ کبھی ہم نے یہ بھی سوچا کہ ہم نے سرکار کو کیا دیا؟ یعنی من حیث المجموعی قوم ہم نے سرکار کو کیا دیا؟ کلی طور پر ہم نے سرکار کو کیا دیا؟ سرکار پہ تنقید کرنا بہت آسان ہے ناں…!