اونٹ پر بیٹھیں تو ’’کوہان ‘‘ تو ہوگا!!
یہ تو حقیقت ہے کہ ملت اسلامیہ کے لئے بہترین طرز حکومت جمہوریت ہی ہو سکتا ہے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت اس لئے بہترین طرز حکومت ہے کہ اس میں افراد کے تمام امکانی مسائل اور ارتقاء کا ضامن ہی نظام ہو سکتا ہے۔ مگر یہ امکانی مسائل کا حل اور ارتقاء اگر مخصوص لوگوں اورگروہوں کے لئے ہو تو یہی ہوتا ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت سامنے آتی ہے۔ دنیا میں جو بھی سربراہ منتخب ہوتا ہے اسے اپنے اقتدار کے سامنے اپوزیشن اور عدلیہ کا یعنی احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور منتخب حکمران کے لئے یہ نہیں سوچا جا سکتا کہ وہ ہر طرح کی من مانی کر سکتا ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہے۔ لیکن ہمیں تنقید برداشت کرنے کی عادت نہیں ہے اور ہمارے ہاں سماجی کے علاوہ سیاسی کلچر ہی ایسا بن چکا ہے کہ جس میں محض تنقید برداشت کرنا دشوار ہوتا ہے۔تو پھراس سے بڑھ کر عدالت یا عدلیہ یا انصاف یا پھر ناانصافی کے تقاضوں یا اعتراضات کے مراحل تو سخت دشوار محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن حکمرانی کوئی آسان بات نہیں ہوا کرتی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ملک میں اقتدار کو اختیارات کے مزے لوٹنے کے لئے سوچا جاتا ہے اور حکمران بن کر رہنما ہی اس ملک کی خدمت کرنے کے تصور کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے مگر ہری چند اختر کے اشعار ہیں۔
کیا ہم اونٹ پر بیٹھیں
کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے
کیاکوہان تو ہو گا
ہمارے حکمران اقتدار کے اُونٹ پر بیٹھنے اور پھر مسلسل بیٹھنے کے تو شوقین ہیں اور ان سے کہا جائے کہ شوق سے حکمرانی کرو مگر پھرکوہان تو ہو گا تو مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایک مضبوط اپوزیشن کے بھرپور کردار اور پھر احتساب کے لئے تیار رہنا بھی اہم بات ہے جمہوریت میں ایسا ممکن نہیں کہ نام نہاد اشرافیہ خود کو ہر طرح کے احتساب سے ماورا سمجھ لیں اور پھر جمہوریت میں دولت کی تقسیم کے حوالے سے بہت بڑا امتیاز قائم ہو جانا بھی جمہوریت کی نفی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے مضمون Political thought in Islam میں موروثی سیاست کے بارے میں اہم باتیں لکھی ہیں جس میں انہوں نے دو واقعات بیان کئے۔ پہلی مثال میں عامر بن الظیفل حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا اگر میں اسلام قبول کر لوں تو کیا منصب و مرتبہ دیا جائے گا اس پر آپؐ نے فرمایا۔ مجھے ہرگز اختیار نہیں،، آج تازہ ترین صورحال میں سینیٹ کے الیکشن دیکھ لیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پیسہ لگایا جاتا ہے یعنی کوئی بھی سیاسی پارٹی پہلے سے ہی خرابی کے راستے کی طرف چلنے کی طرف لگا دیتی ہے اور پھر سیاسی پارٹیوں کو کسی امیدوار کے لئے قبول کرنے کا معیار بھی یہی ہے کہ اسے کیا ملے گا۔؟
ان موقعوں پر ملک یا عوام کہیں دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ دوسری مثال میں علامہ اقبال نے لکھا تھا کہ حضرت عمرؓ نے اپنی رحلت سے قبل اپنے جانشین کے انتخاب کی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے سات افراد کی کمیٹی بنائی تاکہ ان کے بعد ان کا جانشین مقرر کیا جائے۔ اس کمیٹی میں حضرت عمرؓ کا بیٹا بھی شامل تھا۔ حضرت عمرؓ نے شرط یہ رکھی تھی کہ کمیٹی کے ارکان میں سے کوئی بھی خلیفہ بننے کا دعویدار یا اُمیدوار نہیں بن سکے گا۔،،
ہمارے ملک میں جمہوری ادوار میں کبھی فوج پر تنقید ہوتی ہے اور آج کل عدلیہ بولڈ فیصلے کر رہی ہے اور اس پرتنقید بھی کی جا رہی ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے جمہوریت کے اصل اصولوں کی کبھی پاسداری نہیں کی اور جمہوریت میں استعماریت اور ملوکیت کے ایسے سلسلے دراز کئے رکھے ہیں کہ پھر کسی نہ کسی اور کو درستگی کے لئے غلط یا صحیح اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کون سی سیاسی پارٹی رہی ہے جو یہ اعلان کرے کہ اس کے خاندان کے افراد تسلسل کے ساتھ حکمرانی کرتے رہے تو ملک کے نوجوانوں کا استحصال ہے لہٰذا کسی ایک حد کے بعد یہ سلسلہ نہیں چل سکتا۔
ظفر علی راجا نے اپنی کتاب ’’قانون دان اقبال‘‘ میں بڑا اہم پہلو بیان کیا ہے کہ علامہ اقبال نے مغربی جمہوریت کا بغور مطالعہ کیا جس سے وہ شروع شروع میں متاثر بھی تھے اور پھر یہ نتیجہ نکالا کہ مغربی جمہوریت یورپی معاشرہ کی نشاۃ ثانیہ کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور اس کے مقابلے میں اسلامی جمہوریت معاشی توسیع کی بجائے روحانی اصول کے طور آئی ہے اور اس کا بنیادی مقصد فرد کے مخفی امکانات اور صلاحیتوںکو ارتقاء بخشنا تھا اور اسی پہلو کے نتیجے میں اسلام نے متوسط اور ادنیٰ طبقے سے اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حامل افراد پیدا کئے لیکن آج ملک میں جو مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ ان میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ محض معاشی توسیع کے لئے کام کرنے والے حکمران صحیح جمہوری حکمران نہیںبن سکتے بلکہ اس کی وجہ سے ’’اختیارات‘‘ کی ہوس، عیش کوشی اور پھر عوام سے تفریق بڑھ جاتی ہے اس لئے پاکستان میں لولی لنگڑی، اصلی نقلی یا مغربی جمہوریت کی بجائے ’’روحانی جمہوریت‘‘ پر کام کرنا ہوگا۔ تاکہ فوج یا عدلیہ سے گلے شکوے ختم ہو سکیں اور ملک کو بار بار نقصان کا اندیشہ نہ رہے اور جمہوریت کے ذریعے صالح، خدا ترس اور عادل قیادت سامنے لائی جا سکے کیونکہ اس وقت حکمرانوں کا اقتدار اور اختیارات پر اصرار اور عدلیہ کے کردار میں باتیں کرنے میں ایسی ہی باتیں شامل ہیں جس میں حکمران یہ پوچھتے ہیں کہ
کیا ہم اونٹ پر بیٹھیں
کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے
کہا کوہان تو ہو گا