شہباز شریف۔۔ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور ماڈل ٹائون سرگودھا
وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف اب مسلم لیگ ن کے قائم مقام صدر ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ عنقریب مسلم لیگ کے مستقل صدر بن جائیں گے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ان وجوہات کا ذکر کیا تھا جن کی بنیاد پر مسلم لیگ ن کی صدارت کے لئے سب سے بہتر امیدوار وہی تھے چنانچہ نئی صورتحال میں ’’قائد‘‘ کے نئے منصب پر فائز ہو تو مخالفت ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ ’’اتفاق‘‘ کا پس منظر رکھنے والے خاندان کے بڑوں کی طرف سے یہی فیصلہ وقت کی آواز تھی۔ میاں شہباز شریف کی رات دن کی بھاگ دوڑ اور عملی طور پر کم سے وقت میں عوامی مفاد کے میگا پراجیکٹوں کی تکمیل ان کی اچھی شہرت اور مسلم لیگ ن کی انتخابی مقبولیت کا باعث بنتی رہی ہے۔ تصویر کا ایک رخ یہ ہے اور تصویر کا دوسرا رخ وہ ہے جو ان کی حکومت کے بعض غیر ذمہ دار افسروں اور اہل کاروں کی بدعنوانی، غفلت، لوٹ مار اور عوام دشمنی کے باعث مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی شہرت کو داغ دار کئے دیتا ہے۔ آج صرف ایک مثال کافی ہے اور اس کا تذکرہ اس امید کے ساتھ کر رہا ہوں کہ وزیراعلی پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب فوری طور پر صورت حال کا نوٹس لیں گے۔ یہ مثال ماڈل ٹائون سرگودھا کی ہے۔ ایک ایسی رہائشی سکیم جو کہ تقریباً 28 سال پہلے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے دور ہی میں سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ نے شروع کیا تھا۔ (اب سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ لاہور کے ایل ڈی اے کی طرح سرگودھا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی صورت میں سامنے آنے والا ہے) سرگودھا کے ڈپٹی کمشنر، ڈی سی او، تحصیل ناظم وقفے وقفے سے بلحاظ عہدہ امپرومنٹ ٹرسٹ کے چیئرمین ہوتے ہیں۔ ماڈل ٹائون سرگودھا کی ساری تشہیر ڈی جی پی آر کے ذریعے سرکاری سطح پر ہوتی ہے۔ ہزاروں خاندان اپنی جمع پونجی اپنے اپنے پلاٹوں کی قسطیں ادا کرکے ختم کر چکے ہیں۔ سوئی گیس تک کے پیسے ڈویلپمنٹ کے نام پر جمع کروا چکے ہیں۔ ٹرسٹ کے بدعنوان کرپٹ اہلکار عوام کا پیسہ فراڈ کرکے کھا گئے۔ اینٹی کرپشن میں مقدمات خود حکومت نے درج کروائے۔ ٹرسٹ کے اہل کاروں کی لوٹ مار کے تسلسل کے بعد جب عوام کو الاٹ شدہ پلاٹ نہ ملے اور ترقیاتی کام نہ ہوئے تو معاملہ محتسب اعلی اور گورنر پنجاب تک گیا ہر جگہ ٹرسٹ کے حکام کو احکامات ملے کہ عوام کو ترقیاتی کام کروا کر پلاٹوں کا قبضہ دیا جائے۔ ٹرسٹ حکام نے لوٹ مار کرنے والوں سے عوام کا پیسہ واپس لینے کی بجائے عوام سے جب یہ ترقیاتی فنڈز کے نام پر پیسے مانگے تو ہائی کورٹ نے اپنے حکم کے ذریعے ایسا کرنے سے روک دیا اور مہلت دے کر ہدایت کی کہ اب الاٹیوں سے مزید کوئی پیسہ نہ لیا جائے اور ماڈل ٹائون میں ترقیاتی کام کروا کر پلاٹ الاٹیوں کے حوالے کئے جائیں۔ سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ کے چیئرمین کا عہدہ ہر ڈپٹی کمشنر کے لئے ایک چیلنج بنا رہا ہے۔ محدود عرصہ کی پوسٹنگ کی وجہ تے ہر ’’چیئرمین‘‘ ٹال مٹول سے اپنا وقت گزار کر چلا جاتا رہا ہے۔ الاٹیوں کی طرف سے توہین عدالت کا کیس بھی ایک عرصہ سے زیر سماعت ہے۔ امپرومنٹ ٹرسٹ کے نمائندے اب ایک عرصہ سے عدالت میں یہ مؤقف اختیار کرکے وقت گزار رہے ہیں کہ ماڈل ٹائون سرگودھا میں ترقیاتی کام پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کی بنیاد پر کرانے کے لئے کارروائی ہو رہی ہے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے اس ضمن میں خط وکتاب کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ گزشتہ ایک سماعت میں ڈپٹی کمشنر سرگودھا نے فاضل عدالت میں ایک خط پیش کیا تھا جس میں حکومت کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سیل سے کہا گیا تھا کہ وہ فاضل عدالت کی طرف سے توہین عدالت کی کارروائی کے مؤثر ہونے سے پہلے ماڈل ٹائون کی ڈویلپمنٹ کے لئے ان کے لیٹر پر حتمی فیصلہ کرے لیکن حکومت پنجاب کا پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا پی پی پی سیل بھی خاموش ہے اور ہزاروں خاندان گومگو اور انتظار کی سولی پر لٹکتے چلے آ رہے ہیں۔ فاضل عدالت میں توہین عدالت کے کیس کے حتمی فیصلے سے پہلے کیا وزیراعلی پنجاب یعنی مسلم لیگ ن کے نئے صدر اور چیف سیکرٹری پنجاب ہزاروں خاندانوں کی آواز پر کان دھریں گے اور ان لوگوں کی گوشمالی کریں گے جو اپنی بدعنوانیوں سے ان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ نئے منصب پر آنے کے بعد میاں شہباز شریف کے لئے یہ ایک چھوٹا سا چیلنج بھی ہے۔