شجر کاری کینال ایکسپریس وے تک بڑھائی جائے
ہماری حکومتوں کو مستقبل میں رونما ہونے والے مسائل پر ابھی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس وقت پاکستان کو جو معاشرتی مسائل درپیش ہیں ان میں اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے مستقبل میں ہمارے ملک کو بارشوں اور بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں کا خطرہ ہے۔ یہ بات بہت حد تک بجا ہے کہ گلوبل وارننگ کے باعث دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والوں کو شدید مسائل در پیش ہو چکے ہیں ‘ بارشوں کی بہتات اور سیلاب کی لپیٹ میں آ کر امریکہ اور ایشیاء کے مختلف حصوں میں رہنے والے کروڑوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور سٹڈی ان دی جنرل سائنس ایڈوائسز کی ایک رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو 2040ء تک سیلاب کے متاثر ین کی تعداد ایک کروڑ گیارہ لاکھ نفوس تک بڑھ جائے گی ‘ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات پر قابو پانے کیلئے عالمی سطح پر کوششیں کی گئی ہیں ‘ اس حوالے سے سب سے زیادہ کام امریکہ جیسے دنیا کے بیشتر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے جن اقدامات کیلئے مدد اور تعاون دیا جاتا تھا ‘ وہ ختم کیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے عدم تعاون کے رویہ سے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے پیدا ہونے والے خلاء سے عہدہ برا ہونا ناگزیر عمل بن چکا ہے ‘ بین الاقوامی سطح پرغیر مثبت رویوں کے علاوہ مقامی سطح پر کوششوں اور حکومتی اور محکمہ جاتی اقدامات سے بھی صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں جس طرز کی جمہوریت ہے ‘ مقتدر اشرافیہ کو جیسے تیسے اپنا پانچ سالہ حکومتی دورانیہ پورا کرنے سے غرض ہی ان کا مطمع نظر ہو تا ہے اور یا پھر اگلے پانچ سال کیلئے اقتدار میں آنے کی خواہش ہو تی ہے جس کے باعث وہ یا تو ایسے ترقیاتی کاموں میں مگن رہتے ہیں جن کی جھلک زمینی نیچائی کے طور پر سب کو نظر آ ئے جیسے ہماری حکومتوں کی ترجیحات ملک کے دیگر مسائل سے کہیں زیادہ تعمیر و ترقی کے میٹر و کلچر پرہیں ۔ گلوبل وارننگ کے چیلنجوں سے نپٹنے کیلئے ہمارے ملک میں جنگلات کا رقبہ بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرنے کے حوالے سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے ‘ 2025وژن کی باتیں تو ہو تی ہیں لیکن نہ تو حکومتوں نے مردم شماری جیسے آئینی اور معاشرتی تقاضے کو درست طور پر حل کیا ہے اور نہ 2040میں در پیش گلوبل وارننگ کے حوالے سے کوئی قومی پالیسی بنائی گئی ہے ‘ اگرچہ 2040کا چیلنج بہت قریب نہیں ہے مگر یہ اتنا بھی دور تو نہیں ہے کہ اس کے متعلق پلاننگ نہ کی جائے ‘ 2040محض دو دہائیوں کے فاصلے پر ہے ‘ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کم سے کم سطح پر رکھنے کیلئے ابھی سے پلاننگ کرنے اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی جانی چاہیے ‘ ہمارے ملک میں نہ صرف جنگلات کو محفوظ رکھا جائے ‘ درختوں اور پودوں کو غیر ضروری طور پر محض ایندھن کی ضرورت کیلئے کاٹنے کا سلسلہ ختم کیا جائے اور ملائیشیا کی طرح ہمارے ہاں ہر پیدا ہونے والے بچے کے نام کا ایک درخت لگنا چاہیے ‘ ملک میں ایسے رقبہ جات مختص کئے جائیں جن میں عام آدمی کو اپنے اپنے خاندان کے افراد کی تعداد کے مطابق درخت لگانے اور ان درختوں کی رضا کارانہ دیکھ بھال کا پابند کیا جائے ‘ گزشتہ دنوں ڈائریکٹر جنرل پی ایچ اے کو ہمراہ لے کر ارکان پنجاب اسمبلی حاجی خالد سعید اور فقیر حسین ڈوگر نے عبداﷲ پور پل سے کشمیر پل تک کینال روڈ کے دونوں اطراف موجود گرین بیلٹوں میں مزید شجر کاری کرنے کی ہدایت کی ہے ‘ حاجی خالد سعیدکو رکن اسمبلی کے علاوہ پی ایچ اے کا وائس چیئرمین بھی نامزد کیا گیا ہے ‘ حاجی خالد سعید نے کینال روڈ پر اس محدود ایریا میں شجر کاری کا افتتاح تو کرا دیا ہے ‘ جو کہ انتہائی مفید اور حوصلہ افزا ہے اس سے قبل انہوں نے جڑانوالہ روڈ اور مدینہ ٹائون کی مین شاہراہوں کی گرین بیلٹوں میں بھی انتہائی جدوجہد اور دلچسپی کے بعد پودوں کی نش و نما کیلئے گرین بیلٹوں کو نئے سرے سے سر سبز و شاداب بنانے کیلئے کام کا بھی آغاز کروا یا ہے ‘ لیکن ضلع فیصل آباد میں پی ایچ اے کی ذمہ داری اندرون شہرتک محدود ہے ‘ تاہم محکمہ جنگلات کو بھی الرٹ کرنے کی ضرورت ہے ‘ پی ایچ اے کو کینال روڈ کے دونوں طرف عبداﷲ پور سے نہ صرف گٹ والا (لائلپور انڈر پاس) تک بلکہ ایکسپر یس وے کے دونوں اطراف میں ساہیانوالہ انٹرچینج تک دونوں اطراف میں شجرکاری کا چیلنج قبول کرنا اور محکمہ جنگلات کو ضلع بھر کی سڑکوں اور راہوں کے ساتھ شجر کاری کے چیلنج سے عہدہ برا ہونے کی ضرورت ہے ‘ ہمارے ہاں ماحول میں بہت زیادہ آلودگی پیدا ہو چکی ہے اور پھر بڑھتی ہوئی آبادی نے بھی بطور خاص فیصل آباد شہر اور دوسرے تحصیل ہیڈ کوارٹر شہروں میں نئے پارکوں کے قیام ، شجر کاری کے رقبہ جات قائم کرنے والوں کے ساتھ تعاون کرکے ان شہروں کے آس پاس آکسیجن پیدا کرنے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے ‘ کینال ایکسپریس وے کی 25کلو میٹر دو رویہ شاہراہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ذاتی دلچسپی کے ساتھ اربوں کی لاگت سے تعمیر کرائی ہے، اور اسے فیصل آباد کی اکنامک حب قرار دیا گیا ہے ‘ یہ شاہراہ فیصل آباد کا حسن اور آئندہ کا مستقبل ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ آٹھ دس ماہ قبل وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے جب کنال ایکسپر یس وے کا معائنہ کیا تھا تو انہوں نے ضلعی انتظامیہ اور پی ایچ اے حکام کو ہدایت جاری کی تھی کہ جس قدر بھی ممکن ہو اس کے کنارے شاندار کرنے کے علاوہ گرین بیلٹوں کو سر سبز و شادات بنایا جائے ‘ چنانچہ اس وقت کی پی ایچ اے کی انتظامیہ نے کچھ حد تک شجر کاری کی تھی ‘کیا ہی مناسب ہو گا کہ حاجی خالد سعید جو کہ آج کل شجرکاری اور گرین بیلٹوں کی دیکھ بھال کی طرف خصوصی توجہ دے رہے ہیں وہ ڈپٹی کمشنر سلمان غنی اور پی ایچ اے سے مشاورت کرکے کینال ایکسپریس وے کو سر سبز و شاداب بنانے کیلئے ابھی سے کمر باندھ لیں اور محکمہ جنگلات اور گٹ والا فارسٹ کی انتظامیہ کو ساتھ ملا کر جتنا بھی ہو سکے کینال ایکسپریس وے کے دونوں کناروں پر زیادہ سے زیادہ درخت لگوائیں اور پی ایچ اے کے ذریعے گٹ والا چوک لائلپور انڈر پاس ‘ چک جھمرہ ‘کھرڑیانوالہ فلائی اوور چوک‘ سکندر پور رائونڈ ابائٹ چوک میں خوبصورت اور دلکش گرین بیلٹیں بنوانے کیلئے ہدایات جاری کریں‘ چند ماہ قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ کینال ایکسپریس وے کے دونوں کناروں پر شہریوں اور بچوںکو کھلا اور سر سبز ماحول فراہم کرنے کیلئے گٹ والا پارک پر 50کروڑ روپے لگائے جائیں گے ‘ کمشنر مومن آغا اور ڈپٹی کمشنر یہ اعلان کر چکے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ گٹ والا پارک کے علاوہ کینال ایکسپریس وے پر مزید چار سے پانچ نئے پارک بنائے جائیں گے ‘ اس سلسلہ میں کمشنر مومن آغا اور ڈپٹی کمشنر سلمان غنی کو عملی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے ‘ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے جنگلات کے رقبہ جات کے حوالے سے پاکستان کے عالمی رینکنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اورچیمبر کے صدر ملک طاہر جاوید نے ملک میں جنگلات کے رقبہ میں مسلسل کمی کی وجہ سے ملک کو تباہ کن معاشی و ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہونے کا پہلو اجاگر کرتے ہوئے نشان دہی کی ہے کہ پاکستان میں جنگلات کارقبہ صرف ایک فیصد کے لگ بھگ ہے جبکہ روس اور بھارت میں بالترتیب49فیصد اور 23فیصد سے زائد رقبہ پر جنگلات ہیں۔ پاکستان میں جنگلات کارقبہ بڑھانے کی ضرورت پر زور دیاجائے،روس اور بھارت جنگلات کے رقبہ کے حوالے سے پہلے اور دسویں نمبر پر ہیں ‘ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں نہایت تیزی کے ساتھ جنگلات میں کمی ہو رہی ہے کیونکہ ماحولیاتی نظام اور معیشت براہ راست اس سے وابستہ ہیں ‘ پاکستان میں سکٹرتے ہوئے جنگلات کا مسئلہ حل کرنے کیلئے حکومت اور نجی شعبے سمیت پاکستان کے ہر ذی شعور شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ جنگلات نہ صرف حیاتیاتی نظام کو تحفظ دیتے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی راہ فراہم کرتے ہیں بلکہ معاشی حوالے سے بھی بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ‘ ہماری حکومتوں کی طرف سے عوام کیلئے روٹی ‘ کپڑے اور مکان کا مسئلہ بھی ہر دور میں اٹھایا جاتا رہا ہے ‘ اگر دیکھا جائے تو جنگلات میں بنی نوع انسان کیلئے بدن ڈھانپنے کے لئے ریشہ ‘پیٹ بھرنے کیلئے فروٹ اور سبزیوں کے علاوہ لائیو سٹاک کی پرورش کا سامان اور لائیو سٹاک سے کھالیں ‘ گوشت ‘دودھ اور انڈے اور ان اشیاء کے عوض دیگر سہولیات زندگی کی حصول کے مواقع اور پھر لکڑی سے گھروں کی تعمیر میں لکڑی کی افادیت ‘ لکڑی سے گھروں کی چھت اور حفاظت کیلئے لکڑی کی باڑ‘ گویا‘روٹی کپڑے اور مکان کا جو پروگرام پاکستان کے ماضی کے ایک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو دیا تھا ‘ صر ف جنگلات کا رقبہ بڑھا کر عوام کیلئے ان تینوں ضرورتوں کو پور ا کیا جا سکتا ہے ‘ بشرطیہ ہمارے ملک اور معاشرے میں سرکاری جنگلات اور سرکاری درختوں کی لوٹ مار کا جو رجحان ہے اس کو ختم کیا جا سکے ‘ پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو کی معاشی اور ماحولیاتی عدم بصیرت کا یہ عالم ہے کہ وہ پنجاب حکومت پر تو یہ تنقید کرتے ہیں کہ اس کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو میٹر و کلچر کے علاوہ کچھ نہیں دیا ‘عوام بلاول بھٹو سے یہ سوال کرتے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں سندھ کے عوام کو کیا دیا ہے؟ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کا شہر بنایاگیا ‘ گٹر ابلتے ہیں اور اندرون سندھ آلودگی ‘ گندگی اور دھول اڑنے سے بچے ‘ بوڑھے ‘ جوان سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں ‘کراچی میں پینے کے پانی کی بجائے آلودہ اور گندہ پانی اربوں روپے کے فنڈ ہونے کے باوجود عوام پینے پر مجبور ہیں ‘ جبکہ پنجاب میں اس کے برعکس صورتحال ہے ‘ شاہراہوں کی ترقی کے علاوہ آلودگی کے خاتمے کے لئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں اور شجر کاری بھی نہ ہونے کے برابر ہے ‘ پی ایچ اے سمیت کئی محکمے وجود میں آ چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ’’ وا بستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ‘‘کے مصداق عوام کو توقع ہے کہ ان مطالبات پر حکومت پنجاب خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب غور کرتے ہوئے مزید شجر کاری کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں گے ‘ خیبر پی کے کی حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ ہم درختوں سے قوم کی حالت بدلیں گے اور دعویٰ کر رہی ہے کہ خیبر کے پی میں ساڑھے چار سالوں کے دوران بے شمار شجر کاری کی گئی ہے اور اسی طرح قدرتی اگنے والے درختوں کی حفاظت پر توجہ دی جا رہی ہے ‘ لہذا صوبہ خیبر پی کے سمیت پورے ملک میں سرکاری درختوں اور جنگلات سے درختوں کی غیر قانونی اور ناجائز کٹوائی کو روکنا ہو گا اور خصوصاً سیاحت کے کاروبار کی ترقی کیلئے کام کرنا ضروری ہے ‘ جنگلات اور شجرکاری کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔