• news
  • image

چودھری سرور کو ٹکٹ کا اجرا ہی ہارس ٹریڈنگ کی بسم اللہ!

عمران خان مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں کہ یہ تو پتہ ہے کہ خیبر پی کے میں رشوت کس نے دی لیکن تحقیق یہ کرنی ہے کہ رشوت قبول کس نے کی مگر عمران بھول گئے کہ جب یہ جانتے ہوئے کہ پنجاب میں ان کی پارٹی ایک بھی امیدوار جتوانے کے قابل نہیں تو انہوں نے ایک ارب پتی چودھری محمد سرور کو سینٹ کا ٹکٹ کیوں دیا ، کیا یہ کرپشن کی بسم اللہ نہیں تھی کہ چودھری سرور اپنے ووٹ پورے کرنے کے لئے اب اپنی تجوری کا منہ کھولیں اور برطانیہ کے بعد پاکستان کی سیاست پر حاوی ہو جائیں۔ پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میںچودھری سرور کی اگر اتنی ہی ضرورت تھی تو انہیں عام انتخابات میں جھونکتے۔ آٹے دال کا بھاﺅ معلوم ہو جاتا۔ چودھری سرور کو ٹکٹ جاری کرتے ہوئے عمران خان نے سوچا ہو گا کہ چلو، ان کے احسانات کا بدلہ اتار دیا۔ اب وہ جیتیں یا ہاریں، ان کی بلا سے یہ ستم ظریفی ہے کہ چودھری سرور نے برطانیہ میں الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی تو ان پر کرپشن کے الزام لگے۔ ان الزامات کو عدالتوں میں ثابت نہیں کیا جا سکا تھا۔ سو چودھری سرور بھی پاک صاف اور پوئتر ٹھہرے مگر وہ جو کہتے ہیں کہ چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہیں جاتا، چودھری سرور نے پاکستان کی سیاست میں نقب لگائی اور شریف برادران کی خدمت گزاری کے عوض معاوضے میں لندن کی ہائی کمشنری مانگ لی میں چودھری سرور سے معافی کا طلب گار ہوں کہ برطانیہ جانے والے دیگر ہزاروں پاکستانیوں کی طرح وہ میرے بھی محسن ہیں مگراحسان کا تقاضہ یہ ہے کہ میں انہیں صاف اور کلین دیکھنا چاہتا ہوں، اس لئے میںنے ان کی دہری شہریت پر اعتراض داغا اور سوال اُٹھایا کہ کسی بھی برے وقت میں جب برطانیہ اور پاکستان کے مفادات میں ٹکراﺅ کی صورت پید اہو گی تو برطانیہ کی بھی شہریت رکھنے والا ہائی کمشنر پاکستان ا ور برطانیہ میں سے کس کا وفادار شہری ثابت ہو گا۔ محمد سرور کا شکریہ کہ انہوں نے میرے اعتراض کا برا نہیںمنایا اور ہائی کمشنری کی مانگ سے ہٹ گئے، مگر انہیں گورنر پنجاب لگا دیا گیا تو ان کی دوہری شہریت کا شوشہ پھر اٹھا اور زورو شور سے اٹھا، سرور کو کہنا پڑا کہ وہ برطانیہ کی شہریت چھوڑ رہے ہیں، ان کا اب بھی دعویٰ ہے کہ انہوںنے میڈیا کو شہریت چھوڑنے کے ثبوت دکھائے تھے مگر میں جو ان پر سب سے پہلے اعتراض کرنے والا تھا ، مجھے تو انہوںنے یہ ثبوت آج تک نہیں دکھائے، اور آج پھر وہ اس الزام کو بھگت رہے ہیں مگر وہ جانیں اور عدالت عظمی جانے۔ اللہ ان کا بھلا کرے میں اچھی دعا ہی کر سکتا ہوں مگر یہ جو سینیٹ کے الیکشن میں کرپشن کا بازار گرم ہوا ، جس پر میاں نواز شریف بھی واویلا کر رہے ہیں، عمران خان بھی تلملا رہا ہے ، شیخ رشید بھی چلا چلا کرآسمان سر پہ اٹھا چکے ہیں کہ پشاور میں پیسے ختم ہو گئے تو پنڈی سے ٹرکوں میں بوریاں لے جانی پڑیں، ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کے سربراہ بھی سر پہ ہاتھ رکھ کر رو رہے ہیں اور میرے مربی اور
دوست مولاناسراج الحق نے بھی ہارس ٹریڈنگ پر سخت احتجاج کیا ہے تو میرا ان سب سے کہنا یہ ہے کہ ان سب نے اس وقت آنکھیں اور زبانیں کیوں بند رکھیں جب پنجاب سے عمران خا ں نے چودھری سرور کو ٹکٹ الاٹ کیا، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ ان کی اپنی پارٹی انہیں جتوانے کے قابل نہیں اور وہ صرف ووٹوں کی خرید و فروخت ہی سے جیت سکتے ہیں۔ سینیٹ کی ہارس ٹریڈنگ کی ابتداءہی چودھری سرور کو ٹکٹ کے اجرا سے ہوئی۔ اس لئے عمران خان کو اگرآج ہارس ٹریڈنگ پر اعتراض ہے تو وہ پہلے تو اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کریں کہ اس ہارس ٹریڈنگ کا رستہ کھولنے والے وہ خود تھے۔ اس کے بعد ان کی پارٹی کے ارکان نے جو کیا، اس پر عمران خان کو اعتراض کا حق کیسے مل گیا۔ یہ چودھری سرور کا تذکرہ ناحق درمیان میں آ گیا، میں ذاتی طور پر ان کے لئے نیک تمناﺅں کا اظہار کرتا ہوں مگر مسئلہ یہ ہے کہ پورا ملک سینیٹ کی ہارس ٹریڈنگ پر چیخ و پکار کر رہا ہے۔ صرف پیپلز پارٹی کو اس الیکشن پر اعتراض نہیں ہوا مگر دو ہزار تیرہ کے عام ا نتخابات کی طرح سینیٹ کا حالیہ الیکشن بھی عمومی طور پر کرپشن اور دھاندلی کے الزامات سے ا ٹا ہوا ہے اور اگر اس دھاندلی کا سراغ لگانا ہے تو تفتیش کی ابتدا چودھری سرور سے کرنا پڑے گی، ان کے بارے میں تو ہر ایک مانتا ہے کہ وہ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور اگر جیت گئے ہیں تو اس کے لئے سوائے کرپشن کے اور کیا فارمولا ہو سکتا ہے۔ اسلام ا ٓباد کے رہائشی مصطفی نواز کھوکھر اگر سندھ کے ووٹو ں سے جیتے ہیں تو ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا کہ انہوں نے ووٹوں کی خریدو فروخت سے سیٹ جیتی ہے۔ محمد سرور بھی خیبر پی کے سے ٹکٹ لے کر سیٹ حاصل کرتے تو کسی کو ان پر انگلی اٹھانے کی جرات نہیں ہو سکتی تھی مگر اب ساری انگلیاں انہی کی طرف اٹھ رہی ہیں۔کاش! محمد سرور نے اپنا ٹکٹ خیبر پی کے سے لیا ہوتا ۔ اب ان پر میں اعتراض کروں یا کوئی اور کرے تو مجھے اس پر دکھ ہوتا ہے کہ پاکستان کا یہ شہری جو برطانوی پارلیمنٹ میں پہلا مسلمان رکن بننے کا اعزاز رکھتا ہے اور پھر دو مرتبہ مزید منتخب ہوا ، اور ہمیشہ گوروں کے حلقے سے منتخب ہوا، اس کے بعد ان کا بیٹا منتخب ہوا۔ اس اعزاز پر اس وقت حرف آتا ہے اور مجھے قلق پہنچا ہے کہ محمد سرور نے پاکستان کی سیاست میں داخلے کے لئے شارٹ کٹ اختیار کیا، ان میں ہمت تھی تو عام انتخابات میں قسمت آزمائی کرتے، میں ان کے بھائی چودھری رمضان کو داد دیتا ہوں جو سرور کی طرح گلاسگو میں اپنا اربوں کا بزنس اپنے بیٹوں کے حوالے کر کے بڑی خاموشی سے پاکستان میں الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں، میڈیا کے لئے یہ بریکنگ نیوز بھی ہے کہ محمد رمضان اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے امیدوار ہیں اور انتخابی مہم میں گھر گھر جا رہے ہیں، ایک ایک دروازے پر دستک دے رہے ہیں ، پیسہ تو ان کا بھی خرچ ہو گا کہ پاکستان کے الیکشن میں بغیر پیسے والا الیکشن لڑنے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا مگر ان کے الیکشن میں ابھی کسی آلائش کا الزام نہیں ہے ۔ محمد سرور کی طبع نازک میں صبرا ور تحمل کا بھی فقدان ہے۔ ایک طرف وہ گزشتہ عام انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹ الاٹ کر رہے تھے، پھر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر بنے، ان میں قناعت ہوتی تو وہ اسی منصب پر پانچ سال پورے کرتے مگر انہوں نے گورنر ہاﺅس کو پنجاب کی متوازی سیاست ا ور حکومت کا مرکز بنانے کی کوشش کی اور پھر لڑھک کر پی ٹی آئی میں چلے گئے۔ وہاں بڑی بڑی اے ٹی ایم مشینیں تھیں جنہوں نے سرور کو آگے نہیں بڑھنے دیا اور وہ مایوس ہو کر ایک بار تو پاکستان ہی چھوڑ گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس واپسی کے دوران انہوںنے پاکستانی پاسپورٹ پر برطانوی ویزہ لگوا کر قیام کیا یا اپنی برطانوی شہریت سے رجوع کر لیا تھا۔ اس کے لئے ان کے پاسپورٹوں اور سفری دستاویزات کو کھنگالنا پڑے گا مگر محمد سرور وہ کام کیوں کرتے ہیں جس پر اعتراض کی گنجائش نکلتی ہے۔ یہی میرے لئے صدمے کا باعث ہے اور ان کے مخالفین کے لئے خوشی کا باعث ! ہو سکتا ہے کہ چودھری سرور دہری شہریت کے الزام کو غلط ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں اتحاد ہو جائے تو اس کے نتیجے میں سرور صاحب چیئرمین سینیٹ بھی بن جا ئیں۔ صدر پاکستان کے بعد یہ دوسرا بڑا آئینی عہدہ ہو گا جس کا خواب بھی اس محمد سرور نے نہیں دیکھا ہو گا جب وہ گلاسگو کی گلی گلی میں سر پہ انڈوں کی ٹوکری اٹھائے پھیرے لگاتے تھے۔ دنیا میں معجزے ہوتے رہتے ہیں ، محمد سرور معجزوں کے ذریعے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنا چاہتے ہیں مگر کیا ہی اچھا ہو کہ وہ کرپشن کے الزامات کو دھونے کے لئے بسم اللہ کریں اور اپنی سیٹ سے مستعفی ہو جائیں اور اگلے الیکشن میں قسمت آزمائی کریں، میں ان کے لئے خوشی خوشی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گلی کوچوں میں انتخابی مہم چلاﺅں گا۔ محمد سرور کا استعفی کم از کم ایسے لوگوں کے لئے سکون کا باعث ہو گا جو کرپشن کے الزامات پرخواب ا ٓور گولیاں کھا کر خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن