پاکستان کی بعض شکایات جائز ہیں، امریکہ : دونوں ملک اعتماد سازی پر رضا مند
اسلام آباد (شفقت علی، دی نیشن رپورٹ+ بی بی سی) پاکستانی سیکرٹری خارجہ جنجوعہ کی واشنگٹن میں امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتیں جاری ہیں اور دونوں ممالک اعتماد سازی پر رضامند ہو گئے ہیں۔ جنجوعہ کی ملاقاتیں کامیاب ہوئی ہیں اور وہ وطن واپسی سے قبل مزید ملاقاتیں کریں گی۔ دونوں ممالک پہلے سے زیادہ قریب آ رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کے سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ ملاقاتوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد نے دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے حوالے سے امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ کا خیرمقدم کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجودگی، سرحدوں پر کنٹرول، افغان مہاجرین سے پاکستان کی مشکلات اور افغانستان سے پاکستان کے تعلقات، ایسے چار اہم نکات ہیں جن پر پاکستان کی شکایت کو امریکہ نے جائز قرار دیا ہے اور ان کو رفع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وائٹ ہاو¿س میں دو دن قبل ہونے والی ایک بریفنگ میں جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس جی ویلز نے افغانستان میں قیام امن میں پاکستان کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ امریکی وزارتِ خارجہ پاکستان سے باہمی تعلقات بہتر کرنے کی حمایت کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ چند مہینوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان مختلف وفود کا تبادلہ ہوا ہے جن کا مقصد کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے طریقہ کار وضع کرنا ہے تاکہ باہمی تعلقات کو بہتر کیا جا سکے۔ انھوں نے مزید کہا :'ہم اس عمل کی حمایت کرتے ہیں اور اسے بہت اہم سمجھتے ہیں۔
واشنگٹن (اے اےف پی+ آئی این پی+ آن لائن) امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کنٹرول لائن پر پاکستان اور بھارتی افواج کے درمیان سرحدی جھڑپوں سے کشیدگی بڑھنے کے خطرات ہیں جبکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں کچھ کامیابیاں ملی ہیں اور ملک میں دہشت گردوں اور علیحدگی پسند گروپوں کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔ پاکستان افغانستان میں موجود مخالف عناصر کے خلاف کارروائی چاہتا ہے جس کیلئے وہ امریکہ اور افغانستان کی طرف دیکھتا ہے۔ امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی(ڈی آئی اے)کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل رابرٹ پی ایشلے کی طرف سے عالمی سلامتی صورتحال پر جمع کرائی گئی رپورٹ کی مزید تفصیلات کے مطابق پاکستانی کوششوں سے فرقہ وارانہ اور دہشت گردی کے واقعات کم ہوگئے۔ پاکستان سرحدی دراندازی اور ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز جاری رکھے گا جبکہ مغربی بارڈر مینجمنٹ کی کوششیں بھی کرتا رہے گا۔ پاکستان افغانستان میں موجود مخالف عناصر کے خلاف کارروائی چاہتا ہے جس کیلئے وہ امریکہ اور افغانستان کی طرف دیکھتا ہے۔ امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی نے کہا کنٹرول لائن پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جھڑپوں سے کشیدگی بڑھنے کے خطرات ہیں، توقع ہے رواں سال بھی کنٹرول لائن پر موجودہ صورتحال جوں کی توں برقرار رہے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا بھارت فوج کو جدید بنانے کیلیے مسلسل کام کررہا ہے کیونکہ وہ عالمی طاقت کے طور پر اپنی حیثیت منوانا چاہتا ہے۔ نئی دہلی اپنی عالمی حیثیت کیلئے ایٹمی طاقت کو ضروری سمجھتا ہے، اسی سلسلے میں وہ پہلی ایٹمی آبدوزبنا کر انڈین نیوی کے حوالے بھی کرچکا ہے، جبکہ جلد دوسری ایٹمی آبدوز پر کام کررہا ہے وہ بھی بحریہ کے حوالے کردے گا، بھارت ایشیا بھر میں اپنی سفارتی و معاشی رسائی ثابت کرنا چاہتا ہے جب کہ بحرہند میں اپنے مفادات کا تحفظ بھی کر رہا ہے۔ دریں اثناءامریکہ کی جانب سے اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان اور طالبان دونوں کو جائز شکایات ہیں جنہیں امریکہ حل کرنے کا خواہاں ہے۔جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکہ کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آ ف سٹیٹ الائس ویلس نے نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم یقینی طور پر ’پاکستان سے دور نہیں بھاگ رہے بلکہ ہم سول اور عسکری قیادت سے یہ اہم بات چیت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کس طریقے سے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔