مسلم باغ بلوچستان میں صنعتی بارود کی 25 ہزار والی پیٹی اڑھائی لاکھ میں بکنے کا انکشاف
اسلام آباد(این این آئی) سینٹ فنکشنل کمیٹی کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے اجلاس میں مسلم باغ بلوچستان میں صنعتی بارود کی 25 ہزار قیمت کی ایک پیٹی اڑھائی لاکھ روپے میں فروخت کا انکشاف ہوا، چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے مسلم باغ بلوچستان میں بارود لائسنس کے اجراء کے بارے میں وزارت داخلہ کو دی گئی سفارشات اور ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کان کنی کے شعبے میں تجربے اور اہلیت پر ضلع مسلم باغ اور خانوزائی میں بارود لائسنس دینے کی حامی ہے ۔ قواعد سے ہٹ کر کسی کی سفارش نہیں کرتے غیر مقامی اور ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو دیئے گئے صنعتی بارود لائسنس سے حاصل کردہ بارود کھلے عام مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے جس سے خطرات ہیں ۔ جرائم پیشہ افراد بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔ سینیٹر میر کبیر احمد شہی نے کہا کہ 25 ہزار قیمت کی ایک پیٹی ریڑھیوں پر اڑھائی لاکھ میں سر عام فروخت ہوتی ہے ۔کمیٹی کی بار بار دی گئی سفارشات پر عمل نہیں کیا جارہا ۔سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ بلوچستان کے معدنی علاقہ جات میں آسانیاں پیدا کی جائیں ہر علاقے میں دو یا تین لائسنس جاری کیے جائیں ۔ سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ مسلم باغ میں لائسنس کیلئے درخواست دینے والے حقدار کو لائسنس دیا جائے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مکمل جانچ پڑتال کے بعد وزارت داخلہ سیکورٹی کی اجازت دیتی ہے ۔ مقامی انتظامیہ وزارت صنعت و پیداوار ، وزارت داخلہ ، خفیہ ادارے لائسنس جاری کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔ کان کنی اور معانیات علاقوں سے زر مبادلہ آتا ہے ،روزگار فراہم ہوتاہے ۔لائسنس جاری کیے جائیں اور غیر مقامی افراد کی وزارت داخلہ اور خفیہ ایجنسیوں سے مکمل تفصیلات حاصل کی جائیں ۔ کمیٹی نے وزارت داخلہ ، وزارت صنعت و پیدا وار اور صنعتی بارود کے لائسنس جاری کرنے والے ادارے کے اعلیٰ افسران کو جامع حل تلاش کرنے کیلئے دو دن بعد طلب کر لیا ۔ وزارت داخلہ حکام نے بتایا کہ 1894 ایکٹ قدیم ہو چکا ۔بارود کے استعمال کے خطرات رہتے ہیں ۔ سمگلنگ کا بھی خطرہ ہے جس کے حل کیلئے قومی بارود پالیسی زیر غور ہے ۔ صوبائی وزراء اعلیٰ کا جلد اجلاس منعقد کیا جائے گاتاکہ آئین کی شق 144 کے تحت وفاق کو بااختیار بنا کر پالیسی اور قانون سازی کی جاسکے ۔ کمیٹی نے 18 ویں ترمیم کے بعد منتقل کردہ اختیارات کے تحت صوبوں کو واپس کیے گئے شعبہ جات اور معاملات کو واپس وفاقی اختیارات میں لانے کی مخالفت کی ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک طرف صوبائی معاملہ قرار دیا جاتا ہے دوسری طرف اختیارات واپس وفاق میں لائے جارہے ہیں ۔ سینیٹر میر کبیر احمد شہی نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت17 وزارتیں ختم کی گئیں لیکن 12 نئے ناموں سے واپس وفاق میں شامل کر لیں گئیں ۔ سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ 18 ویں ترمیم آئین کا حصہ بن چکی ۔ کمیٹی نے مسلم باغ میں جاری کردہ بارود لائسنسوں کی تفصیل طلب کیںجس پر آگاہ کیا گیا کہ ملک بھر میں چھ کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے گئے ہیں ۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز میر کبیر احمد شہی ، ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ، اعظم خان موسیٰ خیل ، تنویر الحق تھانوی کے علاوہ وزارت داخلہ ، وزارت صنعت پیدا وار کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔