احتساب عدالت نے واجد ضیاکی جے آئی ٹی رپورٹ ریکارڈ کا حصہ بنانے کے لئے استدعا مستردکردی
اسلام آباد(وقائع نگار +نامہ نگار )اسلام آباد کی احتساب عدالت نے شریف خاندان کیخلاف نیب ریفرنسز میں جے آئی ٹی رپورٹ ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔ جمعرات کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس پر سماعت کی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف، بیٹی مریم نوازاورکیپٹن صفدرعدالت میں پیش ہوئے۔ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا تین آہنی صندوقوں میں جے آئی ٹی رپورٹ و دستاویزات لے کرعدالت پہنچے۔ نیب کے آخری گواہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے بیان قلمبند کرایا ۔ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں واجد ضیاء نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی اورتحقیقاتی ٹیم کو چند سوالات کے جواب تلاش کرنے اور تحقیقات کا حکم دیا گیا ۔تحقیقاتی ٹیم کو گلف سٹیل ، قطری خط ، ہل میٹل کی تحقیقات کا حکم دیا گیا یہ سوال بھی تھے کہ ملزمان کی رقوم جدہ ، قطر اور برطانیہ کیسے منتقل ہوئی، نواز شریف کے بچوں کے پاس کمپنیوں کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا ؟ نواز شریف اور ان کے زیر کفالت افراد کے آمدن سے زائد اثاثے کیسے بنے؟ ۔واجد ضیاء کے بیان پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھایا واجد ضیا ء سپریم کورٹ کے جس حکم نامے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ ریکارڈ پر موجود نہیں۔حکم نامے کی کاپیاں ملزمان کو بھی فراہم نہیں کی گئیں۔واجد ضیا نے بتایا کہ جے آئی ٹی کو نیب قوانین کے تحت اختیارات دئیے گئے ۔ جے آئی ٹی نے نیب ٗ ایف آئی اے اور ایس ای سی پی سے ریکارڈ حاصل کیا ۔ برٹش ورجن آئی لینڈ،برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ایم ایل اے کیلئے خط لکھے۔نواز شریف، شہباز شریف، طارق شفیع، حسن نواز،حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے بیانات قلمبند کیے۔جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد نمبر دو میں موجود ملزمان کے بیانات کو بطور شواہد پیش کرنے پر امجد پرویز نے اعتراض کیا ۔ انہوں نے کہا ایم ایل اے کو بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے لیکن تفتیشی رپورٹ کو ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا جس پر پراسکیوٹر نیب سردار مظفر نے موقف اختیار کیا کہ واجد ضیاء ہمارا گواہ ہے تفتیشی نہیں اور یہ سارا مواد ریکارڈ پر لایا جا سکتاہے۔ جب تفتیشی رپورٹ پیش کرے گا تو اعتراض کیا جا سکتا ہے۔احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ دیا ۔ فاضل جج نے واجد ضیاء سے مکالمے کے دوران ریمارکس دئیے کہ انہوں نے جو دستاویزات جمع کیں وہ باری باری ریکارڈ کروائیں۔دوسری جانب نواز شریف کے وکیل کی جانب سے سابق وزیراعظم کی طبیعت ناسازی کے باعث رخصت کی اجازت مانگی گئی جس کے بعد عدالت نے نوازشریف کوجانے کی اجازت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ملزمان میں سے صرف ایک رہ جائیں باقی سب جاسکتے ہیںجس پر کیپٹن (ر) صفدر عدالت میں بیٹھ گئے ۔عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو فاضل جج نے واجد ضیاء سے پوچھا کہ تمام ریکارڈ لائے ہیں جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جی ریکارڈ لایا ہوں۔ فاضل جج نے واجد ضیاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کہاں سے شروع کریں؟ واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی کے قیام سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے اپنے بیان کا آغاز کیا اور کہا کہ جو بیان ریکارڈ کرائوں گا اس سے متعلق دستاویزات بھی جمع کراتا جائوں گا۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں عدالت میں بیان ریکارڈ کرانے سے قبل واجد ضیاء سے فاضل جج نے ان کا پورا نام اور عہدہ پوچھا جس کے بعد ان سے حلف لیا گیا کہ وہ عدالت سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث 13 مارچ کو واجد ضیاء پر جرح کرینگے۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیکرٹری اطلاعات، پیمرا اور پریس کونسل آف پاکستان سے 19 اپریل تک جواب طلب کر لیا ہے۔ 26 فروری کو سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ نوازشریف نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے متعلق جو کچھ کہا وہ بادی النظر میں توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ جسٹس عامر فاروق پر مشتمل سنگل بینچ نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے جمعرات کو سنایا گیا۔ عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے قائد کیخلاف توہین عدالت کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیکرٹری اطلاعات، پیمرا اور پریس کونسل آف پاکستان سے 19 اپریل تک جواب طلب کر لیا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا آئین کسی کو حق نہیں دیتا کہ ضابطہ اخلاق اور قوانین کی خلاف ورزی کرے۔