چیئرمین سینٹ : اکثریت مل گئی : مسلم لیگ ن ، پی پی کے دعوے
اسلام آباد‘ پشاور، کوئٹہ (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ کے لئے جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے اور مسلم لیگ (ن) کی مذاکراتی ٹیم نے گزشتہ روز نوازشریف کی زیرصدارت اتحادیوں کے اجلاس میں بریفنگ دی کہ اپنا چیئرمین لانے کیلئے مطلوبہ اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ تاہم اتحادیوں سے مکمل مشاورت کے بعد متفقہ امیدوار نامزد کیا جائے گا۔ اتحادی جماعتوں کا اجلاس کل پھر طلب کرلیا گیا۔ اجلاس میں فاٹا سے منتخب آزاد سینیٹرز کو بھی بلایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ کے رہنمائوں کا رہنماؤں سے مشاورت کاسلسلہ جاری ہے۔کچھ اہم ناموں پر غور کیاجارہاہے۔ نوازشریف کا کہنا ہے کہ چیئرمین اتفاق رائے سے سامنے لانے پراچھا پیغام جائے گا۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کی کمیٹی نے یقین دلایا کہ اتحادی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ کیلئے سربراہ نیشنل پارٹی میرحاصل بزنجو کا نام زیرغور ہے۔ راجہ ظفرالحق اور مشاہد حسین کے نام بھی متوقع امیدواروں میں شامل ہیں۔ حاصل بزنجو کو چیئرمین نامزد کیا گیا تو ڈپٹی چیئرمین مسلم لیگ (ن) کا ہوگا۔ کمیٹی رہنماؤں سے بات کرتے نوازشریف نے طنزیہ کہا کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو اتحاد مبارک ہو۔ نواز شریف کا مزید کہنا تھاکہ سینٹ میں مسلم لیگ ن کو مینڈیٹ ملا، آصف زرداری اس کا احترام کریں۔ پی ٹی آئی کی سیاست ہماری دشمنی پر ہی مبنی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ملک کا نہیں اپنا مفاد دیکھ رہی ہیں۔ قبل ازیں ان کا کہنا تھا کہ رضا ربانی کا نام آئندہ ہونے والی ہارس ٹریڈنگ سے بچنے کیلئے دیا تھا‘ اب پی پی نہیں مانی تو اپنا امیدوار ڈھونڈیں گے۔ انہوں نے کہا کس نے کہہ دیا مسلم لیگ(ن) کا چیئرمین نہیں آرہا۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی اتحادی پارٹیوں سے گذشتہ روز بڑا تفصیلی مشورہ کیا اور پھر ان کے اندر بھی اتفاق تھا کہ اگر سینٹ چیئرمین کے لئے میاں رضا ربانی کا نام پی پی کی طرف سے آتا ہے تو ہم اس کو سپورٹ کرینگے۔ میری بھی اپنی یہ خواہش تھی باقی ہمارے اتحادیوں کی بھی یہ خواہش تھی ہم ایسا بندہ چیئرمین کی کرسی پر دیکھنا چاہتے ہیں جو پاکستان کے نظام کے ساتھ آئین کے ساتھ، قانون کے ساتھ اس کی 100فیصد کمٹمنٹ ہونی چاہئے اور آج تک اس کی کوئی جمہوریت کے حوالے سے منفی سوچ نہیں ہونی چاہئے۔ نواز شریف کا کہنا تھا ہم سینٹ میں واحد اکثریتی جماعت ہیں جس کے پاس سب سے زیادہ امیدوار ہیں اور ہم اپنے امیدوار کا نام دے بھی سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی اور میر حاصل خان بزنجو کو ملا کر اچھی خاصی تعداد بن جاتی ہے۔ دریں اثناء سابق وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں چیئرمین سینٹ کیلئے سینئر وزراء کو رابطوں کا ٹاسک دیدیا۔ مشاہداللہ نواز شریف کا پیغام لیکر کراچی جائیں گے۔ اجلاس کے بعد خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے گفتگو میں کیا۔ پیر پگاڑا نے حمایت کا یقین دلا دیا ہے۔ فنکشنل لیگ نے چیئرمین سینٹ کیلئے غیرمشروط حمایت کا اعلان کیا۔ راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ کمیٹی چیئرمین سینٹ کے الیکشن پر سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں کررہی ہے۔ہم نے ابھی تک کوئی نام فائنل نہیں کیا۔ نواز شریف نے رضا ربانی کا نام بڑے خلوص سے دیا تھا۔ مشاہد اللہ ایم کیو ایم اور پیر پگاڑا سے ملاقات کرینگے۔ پیپلز پارٹی سے نہیں زرداری کے رویئے سے شکایت ہے۔ ایم کیو ایم کے دوستوں سے جمعہ کے روز کراچی میں ملاقات کریں گے۔ ہارون اختر، نزہت عامر اور سعدیہ عباسی اپنی دوہری شہریت چھوڑ چکے ہیں۔ارکان سے رابطے کرنے کی بجائے پارٹی کی سطح پر رابطے ہونے چاہئیں۔ مشاہداللہ نے کہا کہ چیئرمین سینٹ کے تقرر کیلئے ہمارے پاس نمبر پورے سے بھی زیادہ ہیں۔لیگی کمیٹی کے ارکان نے فضل الرحمن اور محمود اچکزئی سے بھی ملاقاتیں کیں۔ کمیٹی نے اجلاس میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ چار رکنی کمیٹی میں خواجہ سعد رفیق، مشاہد اللہ خان، ایاز صادق اور مشاہد حسین سید شامل تھے۔ذرائع کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایم کیوایم کے دھڑوں، فنکشنل لیگ اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کو سینٹ میں حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔حکومتی نمائندوں نے فاٹا کے آزاد سینیٹرز کی حمایت مانگ لی۔ فاٹا ارکان نے بھی مسلم لیگ ن سے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ مانگ لیا۔ فاٹا اصلاحات پر عملدرآمد اور ترقیاتی فنڈز کا بھی مطالبہ کردیا۔عمران خان جمعرات کی شام بلوچستان ہائوس پہنچے جہاں انہوں نے بلوچستان سے سینٹ الیکشن میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے سینٹروں سے ملاقات کی پارٹی کے سینئر رہنماء جہانگیر خان ترین ، فواد چوہدری اور عون چوہدری چیئرمین تحریک انصاف کے ہمراہ تھے وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو سے ملاقات کی جس کے بعد پریس کانفرنس سے خاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تحریک انصاف کی سینٹ کی13 سیٹیں آج میں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جھولی میں ڈال دی ہیں کیونکہ اس وقت بلوچستان سے ان کے پاس نومنتخب آٹھ سینیٹرز ہیں جس کے بعد اب ان کے پاس21 سینیٹرز ہوگئے ہیں پیپلز پارٹی کے پاس ان سے کم20 سینیٹرز ہیں اب وزیر اعلیٰ بلوچستان جب پیپلز پارٹی سے بات کریں گے تو ان کی پوزیشن مضبوط ہوگی تحریک انصا چاہتی ہے کہ پہلے تو مسلم لیگ ن کا چیئرمین منتخب نہ ہو اور اس بار بلوچستان سے چیئرمین سینٹ بنے۔ مسلم لیگ ن کا چیئرمین بن گیا تو ہمیں خدشہ ہے کہ وہ ایسا قانون نہ پاس کرالیں جس سے نواز شریف کی کرپشن کے خلاف کیس رک جائیں مجھے تو خدشہ ہے کہ وہ کہیں نواز شریف کو کرپشن کی اجازت ہی نہ دے دیں ۔عبدالقدوس بزنجو نے عمران کا شکریہ ادا کیا۔قبل ازیں عمران نے کہا ہے کہ آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی پورے ملک میںکلین سویپ کرے گی، کارکن پارٹی کی جان ہیں اور 2018انتخابات کے لئے ٹکٹ پارٹی کارکنوں کی مشاورت سے دئیے جائیں گئے۔خفیہ رائے شماری سے ہمیشہ ووٹ بکنے کا خطرہ رہتا ہے، سب کو پتہ ہے سینیٹ کی سیٹیں بکتی ہیں، اتنا تو پتہ چل گیا کہ ایم پی ایز کو ووٹ کے بدلے چار چار کروڑ روپے دیئے گئے لیکن یہ نہیں پتہ کہ کس نے پیسے لئے، سوشل میڈیا پر نام آنے پر کارروائی نہیں کی جا سکتی۔پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمارا چلنا مشکل ہے،مسلم لیگ (ن) شریفوں کی کرپشن بچانے کی پارٹی بن چکی ہے اس لئے ہماری کوشش ہے کہ (ن) لیگ کا چیئرمین سینٹ نہ بنے۔
اسلام آباد( محمد نواز رضا ۔ وقائع نگار خصوصی ) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے ۔ سینٹ کے انتخاب میں ’’نادیدہ قوتوں ‘‘ کا عمل دخل بڑھ گیا۔ عمران خان نے اپنا وزن بلوچستان کے آزاد گروپ کے پلڑے میں ڈال کر زرداری کو پیپلز پارٹی کا امیدوار نامزد کرنے میں مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا جس کے بعد زرداری وزیر اعلیٰ بلوچستان عبد القدوس بزنجو سے ملاقات کے لئے بلوچستان ہائوس پہنچ گئے ۔ ذرائع کے مطابق عمران نے نواز شریف یا زرداری کے نامزد امیدوار کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تاہم انہوں نے سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو آئوٹ کرنے کی شعوری کوشش کی ہے سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں فاٹا اور بلوچستان کے آزاد گروپ کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق سیاسی جماعتیں آزاد ارکان کے ہاتھوں بے بس دکھائی دیتی ہیں مسلم لیگ (ن) کے قائد محمدنواز شریف ، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ آصف علی زرداری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران سارا دن سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے سلسلے میں جوڑ توڑ میں مصروف رہے عمران نے عبدالقدوس بزنجو سے ملاقات میں بلوچستان سے آزاد گروپ سے چیئرمین سینٹ کے لئے امیدوار کی حمایت کرنے کا اعلان کرنے پر سرپرائز دیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے دعویٰ کیا ہے سینٹ میں اپنا چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین لانے کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرلی ہے۔اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی زیر صدارت پارٹی رہنماوں کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں سابق وزیراعظم کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کا تعلق مسلم لیگ(ن)جب کہ ڈپٹی چیئرمین کا تعلق اتحادی جماعت سے ہوگاذرائع کے مطابق اجلاس میں آصف زرداری کی جانب سے چیئرمین سینٹ کے لیے میاں رضا ربانی کے نام کی نوازشریف کی تجویز کو مسترد کیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔اجلاس سے خطاب میں نوازشریف نے کہا کہ جمہوریت کو مستحکم اور پارلیمان کو بالا دست دیکھنا چاہتے ہیں، سینٹ کے لیے ایسا چیئرمین بنایا جائے جو قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی مضبوطی پر یقین رکھتا ہو۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پارٹی نے ابھی کسی کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا امیدوار نامزد نہیں کیا، تاہم اس بات کا قوی امکان ہے مسلم لیگ (ن) راجہ محمد ظفر الحق کے حق میں فیصلہ کرے گی۔ نوازشریف نے راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں ایک سیاسی ٹیم بنائی ہے، آج جمعہ کو مشاہد اللہ خان اور گورنر سندھ سمیت ٹیم کراچی میں ایم کیوایم اور پیر پگارا سے بھی ملاقات کرے گی۔
اسلام آباد (عترت جعفری) وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور پی پی پی پی کے چیئرمین آصف علی زرداری کے درمیان بلوچستان ہاؤس اسلام آباد میں رات گئے ہونے والی ملاقات کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے لئے نامزدگی کرنے کا صوابدیدی اختیار سابق صدر کو سونپ دیا اور توقع ظاہر کی ہے کہ سابق صدر باہمی مشاورت سے حتمی فیصلہ کریں گے۔ زرداری نے بھی کہا کہ وہ مشاورت سے فیصلہ کریں گے اور اس سلسلے میں حتمی اعلان بلاول بھٹو کریں گے۔ ملاقات میں زرداری کی معاونت سلیم مانڈوی والا‘ حاجی محمد نواز کھوکھر‘ راجہ پرویز اشرف‘ ڈاکٹر قیوم سومرو‘ فیصل کریم کنڈی نے کی۔ ملاقات قریباً ایک گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی۔ بعدازاں دونوں رہنماؤں نے میڈیا سے بات چیت کی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سینٹ کے چیئرمین کے منصب پر پی پی پی سے تعلق رکھنے والا سینیٹر ہو گا جبکہ پی پی پی ڈپٹی چیئرمین اورکمیٹیوں کی چیئرمین شپ کی بڑی تعداد سے دستبردار ہو جائے گی۔ فاٹا کے متعدد سینیٹرز کی آج زرداری سے ملاقات کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی برائی نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم جو بھی بات چیت چل رہی ہے اس کا مقصد میاں رضا ربانی کو امیدوار بنانا نہیں۔ آصف علی زرداری جب گاڑی میں بیٹھنے لگے تو ان سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا سلیم مانڈوی والا چیئرمین بن جائیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ ’’انشاء اﷲ‘‘ ملاقات کے بعد آصف علی زرداری نے کہا کہ بلوچوں سے ہمارے پرانے تعلقات ہیں ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ بلوچوں کو نمائندگی دی جائے۔ اس سے قبل بھی بلوچستان سے ڈپٹی چیئرمین سینٹ بنایا گیا۔ ہمیں ان کے درد اور ایشوز کا پوری طرح احساس ہے۔ وزیراعلیٰ کی بہت نوازش ہے کہ انہوں نے فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا اور میں سب سے مشاورت کر کے فیصلہ کروں گا۔ انہوں نے بلوچستان کو چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ کے حوالے سے دیکھ لیتے ہیں‘ جو فیصلہ ہو گا مشاورت سے ہو گا۔ پی ٹی آئی سے تعاون لینے کے بارے میں سوال کے جواب میں آصف علی زرداری نے کہا کہ سیاست عجیب امتحان لیتی ہے۔ مسلم لیگ کی طرف سے مطلوبہ سینیٹرز کی تعداد پوری ہو جانے کے دعویٰ کے جواب میں زرداری نے کہا کہ ہمارے پاس جیتنے کے ووٹ موجود ہیں۔ مسلم لیگ ن کسی اور کو چیئرمین کا ذہن میں رکھ کر دعویٰ کر رہی تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ہماری بلوچ روایت ہے کہ جب کوئی آئے تو اس کا وزن زیادہ ہو جاتا ہے۔ عمران خان آئے تھے جنہوں نے کہا کہ وہ بلوچستان کے حوالے سے ہمیں سپورٹ کرتے ہیں۔ ہم نے فیصلے کا اختیار آصف علی زرداری کو دیدیا۔ ہم امید رکھتے ہیں وہ ہمارے حق میں فیصلہ کریں گے۔ واضح رہے سینیٹ میں پی پی پی کے سینیٹرز کی تعداد 20 ‘ تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 13 ‘ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سے تعلق رکھنے والے ارکان کی تعداد 8 ہے۔ اس طرح واضح تعداد 41 بنتی ہے۔ انتخاب جیتنے کے لئے 53 ووٹ چاہئے۔ پی پی پی‘ پی ٹی آئی اور سی ایم بلوچستان کو مزید 12 ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ اس کے لئے فاٹا ارکان کے علاوہ بھی حمایت حاصل کرنا پڑے گی۔ٹی وی کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان میں کسی کو بلوچوں کا احساس ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے۔ سیاست لوگوں کا امتحان لیتی ہے ابھی تو امتحان شروع ہوا ہے۔ بلوچوں سے پرانے تعلق ہیں اپنے سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی کیخلاف بات نہیں کرنا چاہتا۔ سابق چیئرمین سینٹ نے نواز شریف کی آئین کو متاثر کرنے کی کوششوں کو نظراناز کیا مشاورت سے فیصلہ کریں گے دوست ناامید نہیں ہوں گے۔