2018ء پاکستان ہاکی کے لیے بڑا اہمیت کا حامل ہے
چودھری اشرف
پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کا مستقبل کیا ہو گا اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ساتھ وابستہ آفیشلز کو اس بات کا یقین ہے کہ انہوں نے اس کھیل کی ت رقی کے لیے جو اقدامات شروع کر رکھے ہیں ان سے مستقبل میں اچھے نتائج حاصل ہونگے۔ پاکستان ہاکی کے مستقبل کے حوالے سے پاکستان ہاکی فیڈریشن میں بطور ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ و انفراسٹرکچر کام کرنے والے سابق اولمپیئن نوید عالم سے خصوصی نشست ہوئی جس میں نوید عالم کا کہنا تھا کہ پاکستان ہاکی کا مستقبل روشن ہے وہ اس وجہ سے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے کلب ہاکی پر توجہ دینا شروع کی ہے۔ اس سے قبل ملک میں آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹس ختم ہو کر رہ گئے تھے کم از کم اب ہر علاقے میں ایسے ٹورنامنٹس ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جو پاکستان ہاکی کے لیے خوش آئند ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی کوششوں سے ورلڈ الیون نے پاکستان کا دورہ کیا ہے جس سے قومی کھیل میں ایک مرتبہ پھر جان پڑی ہے۔ پاکستان میں بین الاقوامی ہاکی نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہمارے قومی کھیل کو نقصان ہوا ہے۔ بین الاقوامی ہاکی کی واپسی سے ہمارے نوجوان کھلاڑیوں میں اعتماد پیدا ہوا ہے جبکہ نوجوان کھلاڑیوں کو اپنے ہوم گراونڈ میں رشتہداروں اور شائقین کے سامنے جوہر دکھانے کا موقع ملا ہے۔ ورلڈ الیون میں شامل دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے ایک مشکل وقت میں پاکستان ہاکی کا ساتھ دیا جس کا تمام سہرا پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بریگیڈئر(ر) خالد سجاد کھوکھر اور سیکرٹری اولمپیئن شہباز احمد سینئر کو جاتا ہے۔ موجودہ انتظامیہ کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے جنہوں نے ملک میں ہاکی کلچر کی بحالی پر کام شروع کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ہاکی کلچر کے ذریعے پہلے ہم اپنے ٹیلنٹ میں نکھار پیدا کریں اور اس کے بعد بین الاقوامی سطح پر اس کے جوہر دکھائیں۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں کوئی غیر ملکی ٹیمیں نہیں آ رہی ہیں جس کی بنا پر بھی ہمارے نوجوان کھلاڑیوں کو بین الاقوامی میچز بہت کم مل رہے ہیں۔ دوسرا اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی دورے آسان کام نہیں ہیں اس پر بھاری اخراجات آتے ہیں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی تمام توجہ جونیئر کھلاڑیوں پر ہے۔ فیڈریشن کوشش کر رہی ہے کہ اپنے جونیئر کھلاڑیوں کو یورپ میں کھیلنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرئے اس سلسلہ میں بہت سارا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ اس سے قبل فیڈریشن کی کوششوں سے جونیئر کھلاڑیوں کو آسٹریلیا کے تربیتی دورہ پر بھجوایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں پاکستان ہاکی کو جو نقصان ہوا ہے اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو شارٹ کٹ کے ذریعے اعلٰی عہدوں پر براجمان ہوئے تھے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں جبکہ اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ایک طریقہ کار طے ہے جس کے ذریعے عہدیداران کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اس طریقہ کار کو اپنا کر پہلے آئین کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے اس کے ساتھ ساتھ واکی کلچر کو عام کرنا ہے تاکہ لوگ اپنے بچوں کو اس کھیل میں لائیں۔ سکول اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر ہاکی کی بحالی انتہائی ضروری ہے جس پر کام کیا جا رہا ہے۔ نوید عالم کا کہنا تھا کہ جب سے فیڈریشن میں آیا ہوں میری اولین ترجیح کلب ہاکی کو بحال کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں گراس روٹ لیول سے صوبائی سطح تک کلب ہاکی ٹورنامنٹ کا انعقاد کرایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کا فائدہ یہ ہوا کہ ملک میں آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹس کا آغاز ہو گیا۔ ڈار ہاکی اکیڈمی کے ساتھ ساتھ ہاکی فیمیلی سے تعلق رکھنے والے محمد یعقوب سمیت ملک کے مختلف ہاکی سنٹرز میں ٹورنامنٹ ہونا شروع ہو گئے ہیں جو خوش آئند ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں نوید عالم کا کہنا تھا کہ غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آنے کو فوری تیار نہیں ہیں ایسے میں پاکستان ہاکی کے لیے لیگ ہاکی کا انعقاد ضروری ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن سپانسرز کے ساتھ ملکر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ لیگ ہاکی کا انعقاد کرایا جا سکے جس میں غیر ملکی کھلاڑی بھی شریک ہوں۔ اگر یہ منصوبہ شروع ہو جاتا ہے اس سے پاکستان ہاکی کو بہت فائدہ ہوگا۔ کیونکہ غیر ملکی کھلاڑی جب پاکستان آ کر ہماری لیگ کا حصہ بنے ہیں تو ہمارے نوجوان کھلاڑی ان کے ساتھ کھیل کر اپنے تجربہ میں اضافہ کرینگے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے کھلاڑی دنیا بھر کی لیگز کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے کھیل میں نکھار پیدا کرنے کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بریگیڈئر (ر) خالد سجاد کھوکھر نے کھلاڑیوں کی مالی حالات کو بہتر کرنے کے لیے انہیں ہر قسم کی سہولیات دینے کے ساتھ ساتھ انہیں کسی بھی لیگ کے لیے این او سی فوری جاری کیا تاکہ ہمارے کھلاڑیوں کو اگر ملک میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کے مواقع کم مل رہے ہیں تو کم از کم غیر ملکی لیگز کے ذریعے وہ اس کمی کو پورا کر سکیں اور اپنے کھیل میں نکھار پیدا کر سکیں۔ 2018ء کا سال پاکستان ہاکی کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے جس میں قومی ٹیم نے تین بڑے ٹورنامنٹس میں ملک کی نمائندگی کرنی ہے۔ سب سے پہلے اپریل میں کامن ویلتھ گیمز اس کے بعد ایشین گیمز اور سال کے آخر میں عالمی کپ ٹورنامنٹ شامل ہے۔ کامن ویلتھ گیمز سے زیادہ ایشین گیمز کی اہمیت ہے جس میں کامیابی کے ذریعے ہم 2020ء کے اولمپکس مقابلوں کے لیے کوالیفائی کر سکتے ہیں۔ ان ٹورنامنٹس کی تیاری کی جا رہی ہے امید ہے کہ کھلاڑی قوم اور ملک کو مایوس نہیں کرینگے۔ نوید عالم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بغیر دنیا کی انٹرنیشنل ہاکی مکمل نہیں ہو سکتی ہے، ہم پر بھی بھاری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کھیل میں ترقی کریں اور ماضی کے کھوئے ہوئے اعزازات کو واپس اپنے ملک لا سکیں۔ ماضی میں جو کچھ ہو گیا اسے بھولا تو نہیں جا سکتا کم از کم ان غلطیوں سے ہمیں سبق سیکھنا ہوگا۔ ہماری کوشش ہے کہ اپنے دور میں ایسا نظام بنا دیا جائے جس کے ذریعے پاکستان ہاکی کو پلیئرز کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے لیے دن رات محنت کی جا رہی ہے جس کے لیے اولین ترجیح سفارشی کلچر کا خاتمہ ہے۔