• news
  • image

گردوں کے امراض سے آگاہی کے لیے دنیا بھر میں کڈنی ڈے کا انعقاد

پروفیسر ڈاکٹر وقاراحمد
گردے کی بڑھتی ہو ئی بیماریوں کے متعلق تمام لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے تمام دنیا میں ہر سال مارچ کے دن 2006سے باقاعدگی سے گردوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ لوگوں میں گردے کی بیماریوں اور ان سے بچائو کی آگاہی کے لیے اس دن مختلف طریقے ازماتے جاتے ہیں کہیںپر اسکے لیے واک کا انتظام کیا جاتا ہے کہیں پر میڈیا مہم چلائی جاتی ہے تو کہیں پر اس مقصد کے لیے عام لوگوں کے لیے سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے ہر سال گردوں کے عالمی دن کا ایک خاص Themeہوتا ہے اور Theme of 2018گردے اور عورتوں کی صحت ہے۔ہر گردہ 150 ملین چھوٹے چھوٹے فلٹر’ جنکو Nephzone کہتے ہیں مل کر بناہے جو کام ایک اچھی اور بڑی کمپنی میں Accountant کا ہونا ہے وہی کام جسم میں گردوں کا ہوتا ہے گردے نہ صرف جسم میں پیدا ہونے والے زہر یلے مادے مثلا Cretenine اور Urea وغیرہ کو پیشاب کے راستے خارج کرکے جسم PH مقررہ حد کے اندر رکھتے ہیں۔ گردہ کئی طرح کے ہارمونز بھی پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ مثلا Erythropoitin جو کہ خون بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ وٹامن ڈی کو Active کرنے میں گردوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے جو کہ نہ صرف جسم میں کیلشیم کی مقدار کو نارمل رکھتا ہے بلکہ ہڈیوں کی نشوونما میں بھی اسکا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی طرح کے ہارمونز گردے سے پیدا ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو مقررہ حد کے اندر رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
گردے کی خرابی کی صورت میں یہ تمام افعال disturbہو جاتے ہیں۔ زہریلے مادے جسم میں جمع ہونے لگتے ہیں نمکیات کا توازن بگڑ جاتا ہے زائد پانی خارج نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی زیادتی ہو جاتی ہے۔ زہریلے مادہ جب ایک خاص حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو مریض کو بھوک کی کمی، جی کا متلانا اور الٹیاں آنا عام سے بات ہو تی ہے۔
نمکیات کی بہت زیادہ بگاڑ سے مریض کو غنودگی، بے ہوشی اور مرگی کی طرح کے دورے بھی پڑ سکتے ہیں۔ Erythropoitin کی کمی کی وجہ سے خون کی شدید کمی ہو جاتی ہے۔ جسم میں بعض نمکیات کی زیادتی اور گردے سے پیدا ہونے والے ہارمونز کے بگاڑ کی وجہ سے ان مریضوں میں بلڈ پریشر بھی بہت عام ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں مستقل طور پر گردہ فیل ہونے کی سب سے :ری وجہ شوگر کا مرض ہے۔ تقریباً 40-50% گردہ فیل ہونے کی وجہ شوگر کا مرض ہے شوگر کے بعد ہائی بلڈ پریشر گردہ کی سوزش گردے کی پتھریاں غیر مناسب ادویات خاص کر درد ختم کرنے والی دوائیوں کا زیادہ استعمال اور مکیوں کے کشتے وغیرہ ہیں۔
خواتین میں حمل کے دوران کئی طرح گردے کی پچیدگیوں کا احتمال ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حمل اور بچے کی پیدائش کے وقت بہترین میڈیکل نگھداشت کی وجہ سے یہ پیچیدگیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں لیکن یہ امر انتہائی باعث تشویش ہے ہمارے ملک میں ابھی تک حمل اور زچگی کی وجہ بہت سی خواتین میں گردہ سے متعلقہ پچیدگیاں ہو جاتی ہیں۔ انہیں گردے کے انفیکشن سے لے کر گردہ فیل ہونا تک شامل ہے۔ حاملہ خواتین میں گردے کی ان بیماریوں کی وجہ سے نہ صرف اس ڈائیلائس کی ضرورت پر سکتی ہے بلکہ زچہ و بچہ کی زندگی بھی دائو پر لگ جاتی ہے۔ ان خواتین میں گردے کی پچیدگیوں کی بڑی وجہ دوران حمل مناسب طبی رہنمائی اور علاج نہ ہونے اور غیر تربیت یافتہ اور غیر مستند علاج سے زچگی کروانا ہے۔ ہمارے ہاں ماضی کہ دیہات میں ان وجوہات کی بنا پر زچگی کے دوران بہت زیادہ حون بہہ جانے یا انفیکشن کی وجہ سے بہت سی خواتین کے گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ اگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمارے ملک بھی عمل اور زچگی کے دوران تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ طبی عملہ سے معائنہ اور رہنمائی لازمی قرار دے دی جائے تو ان پچیدگیوں سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے۔
جب گردے کے افعال مستقل طور پر 15%سے کم ہو جاتے ہیں تو طبی زبان میں اس کو ESRD کہا جاتا ہے وہ مریض جو ESRD میں مبتلہ ہو تے ہیں وہ یا تو مستقل طور پر ڈائیلائس پر رہتے ہیں۔ یا پھر انکی گردہ کی پیوندکاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈائیلائس میں خون مشین کی مدر سے فلٹر سے گزار جاتا ہے اور اس میں سے زہریلے مادے، زائد نمکیات اور پانی نکال لیتا ہے ہر ڈائیلائس کا دورانیہ چار گھنٹے ہوتا ہے دنیا کی بہترین ڈائیلائس بھی گردہ کے 15% فنکشن سے زائد نہیں دے سکتی۔ ڈائیلائس کا ایک اور طریقہ Paritonial Dialysis ہے جس میں پیٹ میں ایک نلکلی لگا دی جاتی ہے مریض خود دن میں تین سے چار مرتبہ ڈائیلائس کا محلول پیٹ میں ڈال لیٹا ہے اور 4-6گھنٹے میں پیٹ میں موجود پرانے محلول کو نئے محلول سے تبدیل کر لیتا ہے۔ ڈائیلائس کا یہ طریقہ کار کئی وجوہات کی وجہ سے مشین ڈائیلائس سے بہتر ہوتا ہے لیکن کئی وجوہات کی بنا پر یہ ہمارے ملک میں ابھی تیک رواج نہیں پا سکا۔
ESRDمریضوں کے لیے سب سے بہتر طریقہ علاج گردے کی پیوند کاری ہے۔ گردے کی کامیاب پیوندکاری کے بعد نہ صرف مریض کو گردہ کے 100%افعال مل جاتے ہیں بلکہ ڈائیلائس کی صورت میں خون بنانے والی ادوایات ، ہذیوں اور کیلشم کو مناسب مقدار میں رکھنے والی ادوایات سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔ ڈائیلائس میں کیونکہ مریض کو ہفتے میں تین دفعہ ہسپتال 4-5گھنٹوں کے لیے آنا پڑتا ہے۔ اس لیے تقریباً 100% مریض نہ تو اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں نہ اپنی نوکری یا بزنس کو وقت دے سکتے ہیں۔ جبکہ کامیاب پیوندکاری کے بعد زیادہ تر مریض اپنی تعلیم اور نوکری وغیرہ کو دوبار شروع کر سکتے ہیں یوں وہ مریض ہو کہ ڈائیلائس معاشرے کے عرصہ معطل بنے ہو تے ہیں پیوندکاری کے بعد معاشرے کے کارآمد شہری بن جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں ہر سال تقریباً 22000 لوگوں کو ESRD کا مرض تشخیص ہوتا ہے۔ لیکن صرف چند سو ہی ایسے خوش قسمت ہوں گے جن کے گردہ کی پیوندکاری ہو سکتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ گردہ عطیہ کرنے والے کا نہ ہونا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بلکہ بہت سے ترقی پذیر ممالک میں بھی 70%-80% گردہ دماغی طور مردہ قرار دیئے گے اشخاص سے پیوند کاری کے لیے لیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں قانونی طور پر اس کی اجازت ہونے کے باوجود کئی وجوہات کی بنا پر یہ چیز ابھی تک رواج نہیں پا سکتی۔ جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں ESRD مریضوں کی اکثریت یا تو باقی ماندہ زندگی کے لیے ڈائیلائس کروانے کے لیے مجبور ہوتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد کئی طرح کی پچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں یا ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ہمیں بھی ایسے معاشرے کی ضر ورت ہے جہاں زندگی میں ہی ہر شخض اپنی موت کے بعد اپنے اعضا کو عطیہ کرنے کی وصیت کر جائے اس طرح موت کے بعد آپ کئی لوگوں کو نئی زندگی کی نوید دے جائیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن