جماعتہ الدعوۃ پر پابندی‘ حافظ سعید نے صدارتی آرڈیننس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا
اسلام آباد(آن لائن) جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید نے اپنی جماعت پر پابندی لگانے والے صدارتی آرڈیننس کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق فروری 2018ء میں صدرِ مملکت ممنون حسین نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے جانے والی کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کو پاکستان میں بھی قابل گرفت قرار دے دیا گیا۔اس ترمیم کے تحت حافظ سعید سے تعلق رکھنے والی جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو کالعدم گروپ قرار دیا گیا تھا۔حافظ سعید کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کو چیلنج کئے جانے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے صدر کے پرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری قانون، کابینہ ڈویژن اور سٹیبلشمنٹ ڈویژن کو نوٹسز جاری کردیے۔انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے آرڈیننس میں دفعہ 11 بی اور 11 ای ای میں ترمیم کی گئی، جس میں 11بی میں کالعدم گروپوں کے ضوابط جبکہ 11 ای ای میں افراد کی فہرست کی وضاحت کی گئی تھی۔ حافظ سعید کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 2002ء میں کالعدم لشکر طیبہ سے تمام تعلقات ختم کرکے جماعت الدعوۃ قائم کی گئی لیکن بھارت کی جانب جماعت الدعوۃ کا تعلق مسلسل کالعدم تنظیموں سے جوڑا جارہا ہے۔درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ بھارتی دباؤ کے باعث 2009ء اور 2017ء میں انہیں نظر بند کیا گیا اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے جماعت الدعوۃ کے خلاف ایک قرارداد بھی پاس کی گئی جس کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی تنظیم کو واچ لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ امیر جماعت الدعوۃ کی جانب سے ان کی جماعت کے خلاف جاری ہونے والے آرڈیننس کو پاکستان کی سالمیت کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے لیکن اس آرڈیننس کے ذریعے اس کی خودمختاری خطرے میں پڑ گئی۔ جسٹس عامر فاروق کی جانب سے ابتدائی سماعت کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت مارچ کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔