• news

آشیانہ سکینڈل: چیف انجینئر ایل ڈی اے سمیت چاروں ملزموں کا 10 روزہ ریمانڈ

لاہور (صباح نیوز) لاہور کی احتساب عدالت نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سکینڈل میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)کے چیف انجینئر اسرار سعید اور بلال قدوائی سمیت 4 ملزموں کو 20 مارچ تک جسمانی ریمانڈ پر قومی احتساب بیورو کے حوالے کر دیا۔ ملزموں کو جج محمد اعظم کے روبرو پیش کیا گیا۔ نیب کی جانب سے ان کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے10 روزہ ریمانڈ دیا۔ سماعت کے دوران نیب کے تفتیشی افسر کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ایل ڈی اے کے چیف انجینئر اسرار سعید نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ 2014 کے برخلاف میسرز لاہور کاسا ڈویلپرز کو غیر قانونی فوائد پہنچائے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔تفتیشی افسر کی جانب سے بتایا گیا ملزم اسرار سعید پر آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے اربوں روپے کے غبن میں مبینہ طور پرملوث ہونے کا الزام ہے۔ انہوں نے بتایا نیب کی جانب سے تحقیقات کے بعد اسرار سعید اور ایل ڈی اے کنسلٹنٹ بلال قدوائی کو گرفتار کیا گیا۔ نیب کے تفتیشی افسر نے بتایا ملزم بلال قدوائی ایل ڈی اے کے اسٹریٹجک پالیسی یونٹ میں بطور اپلائیڈ اکنامک سپیشلسٹ تعیناتی کے علاوہ تکنیکی اور مالیاتی کمیٹی کے فعال رکن بھی تھے۔ ملزم بلال قدوائی نے آشیانہ اقبال منصوبے کا مسودہ تحریر کرنے کے ساتھ عمارت کے مکمل کاغذات بھی بنائے جبکہ اس حوالے سے ایک رپورٹ بھی تیار کی۔ تفتیشی افسر نے بتایا ملزم بلال قدوائی کی جانب سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایکٹ 2014 کے خلاف تعمیراتی معاہدہ تحریر کیا گیا اور وہ صرف اس کی تیاری بلکہ اس کی منظوری میں بھی شامل تھے اور انہیں شراکت داروں کی مد میں رد و بدل کی آگاہی حاصل تھی۔ ملزم نے غیر قانونی طور پر معاہدے کی منظوری تھی، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا جبکہ پی ایل ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو امتیاز حیدر کی جانب سے شراکت داروں کے تناسب میں مبینہ تبدیلی سے آگاہی کے باجود یہ معاہدہ منظور کیا گیا۔ انہوں نے بتایا اس معاہدے میں ملی بھگت سے میسرز اسپارکو کو بسم اللہ انجینئرنگ سے تبدیل کیا گیا اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے کاسا ڈویلپرز کو مالی فائدہ ہوا۔ این این آئی کے مطابق قومی احتساب بیورو( نیب ) نے آشیانہ اقبال ہائوسنگ پراجیکٹ میں ہونے والی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کے بعد چار افسران کی گرفتاری کی وجوہات اور ان پر الزامات کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔نیب ترجمان کے مطابق ملزم بلال قدوائی نے آشیانہ اقبال پراجیکٹ کا پروپوزل تحریر کرنے کے ساتھ اسکی بڈنگ کے مکمل کاغذات بنائے۔ اور غیرقانونی فزیبلیٹی رپورٹ بھی تیار کی۔بعد ازاں ملزم بلال کی جانب سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایکٹ (پی پی پی2014 )کے قطعی برخلاف ڈویلپمنٹ ایگریمنٹ تحریر کیا گیا۔تحقیقات کے مطابق ملزم بلال کے تمام اقدامات محض کاسا ڈویلپرز کو غیرقانونی طور پر نوازنے کیلئے اٹھائے گئے۔ملزم بلال قدوائی ناصرف غیرقانونی ایگریمنٹ کی تیاری تک محدود رہا بلکہ مجرمانہ غفلت برتے ہوئے منظوری میں بھی شامل رہا حالانکہ ملزم بلال کو ایگریمنٹ میں شیئر ہولڈرز کی مد میں ردوبدل سے باقاعدہ آگاہی حاصل تھی۔ملزم بلال قدوائی آپس کی باہمی ملی بھگت اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے میسرز لاہور کاسا ڈویلپرز کو غیرقانونی مالی فوائد کا موجب بنا۔ملزم بلال قدوائی نے مرکزی ملزم کے طور پر غیرقانونی ایگریمنٹ کی منظوری دی جس سے حکومتی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ ترجمان کے مطابق کیس میں گرفتار دوسرے ملزم چیف انجینئر اسرار سعید نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ 2014 کے برخلاف میسرز لاہور کاسا ڈویلپرز کو غیر قانونی فوائد پہنچائے۔ملزم اسرار سعید کی کاسا ڈویلپرز انتظامیہ اور ایل ڈی اے افسران سے ملی بھگت کے ٹھوس شواہد نیب کو موصول ہوئے۔ میسرز کاسا ڈویلپرز کو غیرقانونی مالی فائدہ جبکہ حکومتی خزانے کو لگ بھگ 1000 ملین کے نقصان کا باعث بنا۔ملزم اسرار سعید پر آشیانہ ہائوسنگ پراجیکٹ میں قلیدی کردار ادا کرتے ہوئے اربوں روپے کے غبن میں مبینہ طور پرملوث ہونے کا الزام ہے۔نیب لاہور نے ملزم اسرار سعیدکی جانب سے اس غیرقانونی پراجیکٹ کے کاغذات میں مبینہ ردوبدل کے پیش نظر گرفتاری عمل میں لائی تاکہ تحقیقات کو مزید آگے بڑھایا جا سکے۔ نیب ترجمان کے مطابق چیف انجینئرپی ایل ڈی سی ملزم عارف مجید بٹ نے ٹیکنیکل اینڈ فائینینشل ایوالوایشن کمیٹی کا ممبر ہوتے ہوئے اس غیر قانونی جائنٹ وینچر کی باضابطہ منظوری دی جو غیر قانونی اقدام تھا۔جے وی ممبران کے شیئر ہولڈنگ تناسب میں مبینہ ردوبدل سے آگاہی کے باوجود ملزم عارف نے ایگریمنٹ کی منظوری دی۔جے وی ایگریمنٹ میں 90 فیصد کی حصہ دار میسرز سپارکو کنسٹرکشن کمپنی کو صرف 9 فیصد شیئرز کی حامل بسم اللہ انجینئرنگ سے تبدیل کیا گیا۔ملزم عارف اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ بوقت پری کوالیفیکیشن سپارکو کنسٹرکشن کمپنی کو بطور مرکزی شیئر ہولڈر پیش کیا گیا۔بعد ازاں بسم اللہ انجینئرنگ کو مرکزی کمپنی کے طور پر تبدیل کر دیا گیا جو بڑی مالیت کے ایگریمنٹ حاصل کرنے کیلئے نا اہل تھی۔ملزم کے اس غیر قانونی اقدام کا مقصد لاہور کاسا ڈویلپرز کو مالی فائدہ پہنچانا تھا۔ملزم کی میسرز کاسا ڈویلپرز انتظامیہ اور ایل ڈی اے افسران سے باہمی ملی بھگت حکومتی خزانے کو کم وبیش 1000 ملین کے نقصان کا موجب بنی۔نیب حکام کی جانب سے ملزم پر لگائے گئے الزامات کو غلط ثابت کرنے کا قوی موقع فراہم کیا گیا لیکن ملزم انہیں رد کرنے سے قاصر رہا۔ ترجمان کے مطابق چیف ایگزیکٹوپی ایل ڈی سی ملزم امتیاز حیدر کی جانب سے کاسا ڈویلپرز میں شیئر ہولڈرز کے تناسب میں مبینہ تبدیلی سے آگاہی کے باوجود ایگریمنٹ کو منظور کیا گیا۔جے وی ایگریمنٹ میں ملی بھگت سے میسرز سپارکو کو بسم اللہ انجینئرنگ سے تبدیل کیا گیا۔ملزم کا بطور سی ای او غیر قانونی اقدام میسرز لاہور کاسا ڈویلپرز کو مالی فائدے کا موجب بنا جو پی پی پی ایکٹ 2014 کے سرا سر منافی ہے۔ملزم امتیاز حیدر کی ایل ڈی اے اہلکاروں سے باہمی ملی بھگت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کیوجہ سے کاسا ڈویلپرز کو مالی فائدہ منتقل کیا گیا۔

ای پیپر-دی نیشن