• news

پاکستان نے جوابی کارروائی کی توبھارتی سفارتکارو ں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا

اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) نئی دہلی میں پاکستانی سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کے اقدام سے پاکستان بھارت تعلقات کو نوے کی دھائی میں دھکیلنے کے تمام عوامل پورے ہو گئے ہیں۔ ترقی معکوس کے اس عمل کو کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدہ کی مسلسل خلاف ورزیوں ، شہری آبادی پر حملے، ورکنگ بائوندری پر کشیدگی، مذاکرات کے تعطل اور مقبوضہ کشمیر میں بدترین ظلم و ستم نے مہمیز کیا ہے۔پاکستان بھارت تعلقات کی پیچیدگیوں سے آگاہ ایک شخصیت کے مطابق نواز شریف کی دعوت پر اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد اور اس کے بعد 2004 میں یہاں منعقد ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر ہونے والی دو طرفہ ملاقات نے اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم میر ظفرا للہ جمالی اور بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو کنٹرول لائن اور ورکنگ بائوندری پر جنگ بندی جیسے تاریخی اقدام کا موقع فراہم کیا۔اس دوران اگرچہ کرگل کی جنگ بھی ہو چکی تھی لیکن دونوں ملکوں نے ماضی کو فراموش کر کے امن کی جانب انتہائی قابل قدر پیشرفت کی۔بھارت کے سیاسی منظر نامہ سے واجپائی کی رخصتی نے پاکستان بھارت تعلقات کی بساط ہی پلٹ دی۔ پاکستان کی ہر سویلین اور فوجی قیادت نے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا جسے جھٹک دیا گیا۔ نریندر مودی کی آمد نے صحیح معنوں میں دو طرفہ تعلقات کی ترقی معکوس کا عمل شروع کیا۔ وقفوں سے تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ جنگ بندی معاہدہ بھی اپنی موت مرتا دکھائی دے رہا ہے۔اور اب پاکستانی سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کے اقدام نے باہمی تعلقات کو نوے کی دھائی میں پہنچانے کے تمام عوامل پورے کر دیئے ہیں۔ واجپائی کی لاہور آمد اور اس کے بعد تعلقات میں مزید بہتری نے دونوں ملکوں کے سفارت کاروں کی زندگی آسان کی اور غیر اعلانیہ طور پر سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کا عمل ختم ہو گیا۔ اصولاً دونوں ملکوں کو اس کامیابی کو مستحکم کرتے ہوئے مزید پیشرفت کرنی چاہیے تھی لیکن مودی سرکار کے معاندانہ اقدامات نے دونوں ملکوں کی گزشتہ کامیابیوں کے ثمرات ضائع کر دئے ہیں۔ یہ واضح ہے اگر دہلی میں پاکستانی سفارت کاروں اور ان کے اہل خانہ کو تنگ کیا جا رہا ہے تو اسلام آباد میں بھارت کے سفارتی عملہ کو ردعمل برداشت کرنا پڑ ے گا۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن کا تمام تر عملہ ہائی کمشن سے متصل عمارات میں رہتا ہے جب کہ بھارت نے اپنے ہائی کمیشن کے ساتھ عملہ کی رہائشی عمارات،پلاٹ ملنے کے باجود تعمیر نہیں کیں اور بھارتی سفارت کاروں کی رہائش گاہیں اسلام آباد کے تمام سیکٹروں میں پھیلی ہیں۔جوابی کارروائی کی صورت میں بھارتی عملہ کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے دفتر خارجہ برسوں سے بھارتی ہائی کمشن کو تحریری طور پر یاددہانیاں کروا رہا ہے کہ اسے اپنے عملہ کیلئے رہائشی عمارات تعمیر کرنی چاہیں لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

ای پیپر-دی نیشن