• news

جب کوئی ایمانداری کرتا ہے سارے اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں: چیف جسٹس، سیاستدانوں کی تصاویر والے اشتہارات پر پابندی لگا دی

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے جب بھی کوئی ایمانداری کرتا ہے سارے اسکے پیچھے پڑجاتے ہیں، ہمیں کوئی مینڈیٹ ہے تو شفاف الیکشن کروائیں گے، جتنی کمانڈ حاصل انکے ذریعے شفاف انتخابات کرائیں گے، انشاء اللہ جس طرح 1970ء میں شفاف انتخابات ہوئے تھے بالکل اسی طرح شفاف انتخابات کرائیں گے، بڑی بڑی توپیں جو عہدوں پر بیٹھی ہیں جن کی وجہ سے انتخابات میں ہیرا پھیری ہوتی ہے، ہم ایڈووکیٹ جنرل بھی تبدیل کریں گے۔ صوبائی حکومتوں کی طرف سے عوامی پیسوں سے اشتہاری مہم چلانے کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے تمام فریقین سے تجاویز طلب کرتے ہوئے مزید سماعت آج منگل تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں کتنے اشتہارات دیئے گئے؟ اس اشتہار کا بتائیں جس میں عمران خان اور پرویز خٹک کی تصویر بھی نشر کی گئی۔ سیکرٹری اطلاعات کے پی کے نے بتایا کہ پالیسی کے مطابق پارٹی سربراہ یا وزیراعلیٰ کی تصویر نہیں لگائی گئی، پرنٹ و الیکٹرانک اور ریڈیو اور سوشل میڈیا یہ چار میڈیم ہیں، ان ہائوس اشتہارات بنتے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ پچھلے ایک ماہ میں کتنے پیسے خرچ کیے گئے؟ سیکریٹری اطلاعات کے پی نے کہا کل 204 ملین روپے 3 ماہ میں دیئے گئے، یکم جنوری 2013 سے 28 فروری 2018ء یہ رقم پرنٹ، الیکٹرانک اور ریڈیو کے اشتہارات میں دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کیا آپ بیان حلفی دے سکتے ہیں کہ اشتہارات میں صوبائی حکومت کی تشہیر نہیں کی گئی؟ جن اخبارات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ غیر معروف ہیں، خواب سچ کر دکھایا اس اشتہار میں عمران خان صاحب ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں بیان حلفی دیں، غلط بیانی کی صورت میں آپ ذاتی طور پر ذمہ دار ہوں گے، ہمیں اور بھی لوگ معلومات دے دیتے ہیں۔ عدالت نے کے پی کے کی طرف سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں نشرکردہ ایک سال کی تمام تفصیلات طلب کرلیں۔ عدالت نے حکم دیا سیکرٹری اطلاعات بیان حلفی دیں کہ چیئرمین تحریک انصاف اور وزیراعلیٰ کی تصویر نہیں چھاپی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سیاسی مہم کی اجازت نہیں دیں گے، اشتہار دینا ہے تو اپنی جیب سے دیں۔ سیکرٹری اطلاعات کے پی نے کہا میں 3 ماہ کی تفصیل دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کیا عوامی پیسوں سے اپنی ذاتی تشہیر کی جاسکتی ہے؟ جو کچھ کرنا ہے اپنے پیسوں سے کریں، کس کس سے پیسے ریکور کروانے ہیں یہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے، ہمارے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے بچوں کو 3 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملتیں۔ چیف جسٹس نے کہا وزیراعلیٰ پنجاب نے 55 لاکھ روپے جمع کروانے کا وعدہ کیا تھا، بینظیر بھٹو شہید صاحبہ کی بھی تصویر نہیں آنی چاہیے، بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ کی تصویر بھی نہیں آنی چاہیے، بینظیر شہید ہمارے لیے محترم ہیں۔ پنجاب حکومت کی وکیل عصمہ حامد نے کہا وزیر اعلیٰ پنجاب نے پچپن لاکھ کے چیک پر دستخط کر دیئے ہیں، یہ رقم پارٹی فنڈ سے دی گئی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا ہم الیکشن کمیشن سے پارٹی فنڈز کا آڈٹ کرانے کا کہہ دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ دیکھیں وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے لکھا گیا چیک کہیں گم نہ ہوجائے۔ کوشش کریں گے ملک میں بالکل شفاف انتخابات ہوں، کوشش ہے 1970 کے بعد اب بالکل شفاف انتخابات کروائیں، بڑی بڑی توپیں جن عہدوں پر بیٹھی ہیں جہاں گیمز ہوتی ہیں وہ وہیں جائیں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ صوبائی حکومتیں بھی تجاویز دے سکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے اشتہارات کو بند نہیں کر رہے، اشتہارات کی ایک کیٹگری کو بند کر رہے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اے پی این ایس اور سی پی این ای کی طرف سے سفارشات آئی ہیں وہ بینچ مارک ہیں۔ نیشن رپورٹ کے مطابق خیبر پی کے کی جانب سے سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ ایک ارب 63 کروڑ روپے میڈیا کمپین پر 5 برسوں میں خرچ کئے گئے۔ این این آئی کے مطابق سپریم کورٹ نے سیاسی شخصیات کی تصویر والے اشتہارات پر پابندی عائد کر دی۔

ای پیپر-دی نیشن