ارکان پارلیمنٹ کو فنڈز کی بندر بانٹ‘ کیا قبل از الیکشن دھاندلی نہیں‘ پابندی لگا سکتے ہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں ) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عام انتخابات سے قبل حکومت کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز کے اجرا کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے حکومت سے فنڈز کے اجرا کی قانونی حیثیت پوچھ کر عدالت کو آگاہ کریں، کیا ارکان کو ترقیاتی فنڈز دینے کا عمل قبل از الیکشن دھاندلی میں نہیں آتا؟، پیپلز پارٹی نے سرکاری اشتہارات کے ذریعے جو اپنی سیاسی تشہیر کی وہ رقم قومی خزانے میں واپس جمع کرائے، چاہتے ہیں کہ سیاسی لیڈران کی تصاویر اشتہارات میں لگوانا بند کرادیں، جو تصاویر لگی ہیں پارٹی رہنما ئو ں سے پیسے واپس کرادیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سرکاری اشتہارات کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ بات سامنے آرہی ہے حکومت الیکشن سے پہلے ارکان کو ترقیاتی فنڈز جاری کر رہی ہے۔ حکومت کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز انتخابات سے قبل کس قانون کے تحت دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے انتخابات سے قبل ترقیاتی فنڈز کے اجرا پر پابندی لگا دیں۔ سرکاری فنڈز کو ارکان اسمبلی کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔چ یف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا حکومت سے فنڈز کے اجرا کی قانونی حیثیت پوچھ کرعدالت کو آگاہ کریں، کیا ارکان کو ترقیاتی فنڈز دینے کا عمل پری پول (قبل از الیکشن) دھاندلی میں نہیں آتا؟ یہ گائیڈ لائن ہونی چاہئیں کہ سرکاری اشتہار کس کے لیے ہونا چاہیے۔ یہ کام اپنی ذمہ داری سمجھ کرکررہے ہیں۔ حکومتیں اپنی تشہیر کے لیے سرکاری خزانہ استعمال نہ کریں بلکہ سیاسی تشہیر کے لیے اپنا پارٹی فنڈ استعمال کریں۔ سرکاری پیسے سے اشتہار سے پری پول دھاندلی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا پیپلز پارٹی نے سرکاری اشتہارات کے ذریعے جو اپنی سیاسی تشہیر کی وہ رقم قومی خزانے میں واپس جمع کرائے۔ اے پی این ایس کے وکیل نے کہا عدالت میں گائیڈ لائنز پیش کررہے ہیں۔ سرکاری اشتہار ووٹ مانگنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا، اس سے سیاسی تشہیر نہیں ملنی چاہیے اور سیاسی شخصیات کی تصاویر نہیں ہونی چاہئیں۔ سرکاری منصوبوں سے آگہی عوام کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم چاہتے ہیں سیاسی لیڈران کی تصاویر اشتہارات میں لگوانا بند کرادیں، جو تصاویر لگی ہیں پارٹی رہنما ئو ں سے پیسے واپس کرادیں۔ یہ معاملہ ایک دو دن میں حل ہوجائیگا، اس پر کام کررہے ہیں۔ سیکرٹری اطلاعات خیبرپی کے نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا گزشتہ تین ماہ میں صوبائی حکومت نے24 کروڑ روپے اشتہارات پر خرچ کیے، تاہم ان 3 ماہ کے اشتہارات میں پرویز خٹک اور عمران خان کی تصاویرتلاش نہیں کرسکا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے پنجاب حکومت کی جانب سے سرکاری اشتہارات سے متعلق گزشتہ تین ماہ کی رپورٹ جمع کراتے ہوئے بتایا اشتہارات میں سیاسی رہنما ئو ں کی تصاویر شامل ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ ذاتی تشہیرکے پیسے کون دیگا؟ کیا آپ نے 55لاکھ روپے کا پہلے والا چیک دے دیا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا اس معاملے کو پورا دن سنوں گا، یہ معاملہ ایک دو دن میں حل ہوجائے گا ، اس پر کام کررہے ہیں، ہم چاہتے ہیں سیاسی لیڈران کی تصاویر اشتہارات میں لگوانا بند کرادیں۔ صباح نیوز کے مطابق سرکاری اشتہارات کے حوالے سے میڈیا کی تنظیموں نے گائیڈ لائنز عدالت عظمیٰ جمع کرادیں۔ چیف جسٹس نے سیاسی رہنمائوں کی تصاویر والے سرکاری اشتہارات کے پیسے پارٹی رہنمائوں سے لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا جہاں دیکھا جائے گا میڈیا کی آزادی کو دبایا جارہا ہے تو تجاویز لیں گے۔ عدالت نے گائیڈ لائنز وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھجواتے ہوئے رائے مانگ لی، چیف جسٹس نے کہا ابھی گائیڈ لائنز دیکھ رہے ہیں اگلے مرحلہ میں اشتہارات کی شفاف تقسیم کو بھی دیکھیں گے۔