;نوازشریف خاندان کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کا معاملہ کابینہ کے حوالے....
اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ، منصوبہ بندی وترقی پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کسی بھی شہری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے یا نکالنے کی منظوری اب وفاقی کابینہ سے لیا کریں گے، نوازشریف خاندان، سینیٹر اسحاق ڈار اور دیگر لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کےلئے 600سے زائد کیس وفاقی کابینہ کو منظوری کیلئے بھجوا دیے ہیں، چوہدری نثار علی خان وزارت داخلہ کی کمیٹی کے ذریعے نام ای سی ایل میں ڈلواتے اور نکلواتے رہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ چوہدری نثار کو معلوم ہونا چاہیے کہ وزارت داخلہ اپنے فیصلے خود کرتی ہے کسی سے ڈکٹیشن لیتے نہ من مانی کرتے ہیں بلکہ قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، حسین حقانی کے حوالے سے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کیا جارہا ہے، الطاف حسین کو بھی بیرون ملک سے وطن واپس لانے کےلئے انٹرپول کو خط لکھ دیا ہے، وزارت داخلہ اور اس کے ذیلی اداروں میں دوہری شہریت کے حامل افسران کو اہم اور حساس اور عہدوں سے ہٹانے کی ہدایت کردی ہے۔ جمعہ کو یہاں وزارت داخلہ میں صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا کہ چوہدری نثار نے آج قومی اسمبلی میں بیان دیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے دور میں ای سی ایل میں نام ڈالنے سے متعلق ایک میکنزم متعارف کرایا گیا تھا اور ساتھ ہی کہا کہ اب نام ای سی ایل میں ڈالنے کےلئے فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کو عدالتی فیصلے کے بعد ای سی ایل سے متعلق پروٹوکول تبدیل کرنے چاہئے تھے تاہم چوہدری نثار علی خان اور وزارت داخلہ نے عدالتی احکامات نظر انداز کئے، اگست 2016 کے بعد جتنے کیس ای سی ایل میں ڈالے گئے یا ای سی ایل سے نکالے گئے وہ تمام کیس توثیق کےلئے وفاقی کابینہ کو بھیج دیے گئے ہیں جبکہ وزارت داخلہ کے پاس ای سی ایل کے لئے زیر التوا تمام کیسوں کو بھی وفاقی کابیبہ کو بجھوا دیا ہے۔ کابینہ کو مجموعی طور پر بھیجے گئے کیسوں کی تعداد600سے زائد ہے۔انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار علی خان نے 2017تک ای سی ایل کمیٹی کے ذریعے کام چلایا جو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے، ہم نے اب وفاقی کابینہ سے منظوری لینا شروع کردی ہے، نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر، حسن نواز، حسین نواز، اسحاق ڈار سمیت تمام اہم کیسز بھی کابینہ کو بھیج دیے گئے ہیں تاہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ایمر جنسی کی صورت میں نام ای سی ایل میں ڈالنے کےلئے کابینہ سے یہ اختیار مانگا جائے کہ وزیر داخلہ کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ایمر جنسی کی صورت میں نام ای سی ایل میں ڈالے اور بعد ازاں اس کی کابینہ سے توثیق کرا لی جائے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی این جی اوز کے حوالے سے ماضی میں مضحکہ خیز پالیسی بنائی گئی، بے شمار این جی او پاکستان میں اچھا کام کر رہی ہیں تاہم چند ایک این جی اوز کے بارے میں منفی رپورٹ تھیں جن کو این او سی جاری نہیں کئے، ہم نے پاکستان کو دنیا کے ساتھ جوڑنا ہے دنیا سے الگ نہیں کرنا اس لئے غیر ملکی این جی اوز کو پاکستان سے نہیں نکال سکتے تاہم قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے والی این جی اوز کےلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا نوازشریف خاندان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا معاملہ اب کابینہ کے حوالے کردیا ہے۔ چودھری نثار دور کے تمام ای سی ایل کیسز کی توثیق کابینہ سے کرائی جائے گی۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ 2013ءمیں ہم نے ای سی ایل کے حوالے سے پالیسی پر نظرثانی کی ہے‘ اب وزارت کے اندر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کسی ادارے کی جانب سے ای سی ایل میں نام ڈالے جانے کی سفارش کا جائزہ لیتی ہے‘ سابق وزیراعظم کے معاملے پر بھی کمیٹی نے جائزہ لیا ہوگا‘ اس کی سفارشات ایوان میں پیش کی جائیں‘ اگر اس کا فیصلہ اس کمیٹی نے نہیں کیا تو پھر کہیں اور ہوا ہوگا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران پیپلز پارٹی کے رکن سید نوید قمر کے ای سی ایل میں نام ڈالے جانے کے حوالے سے معیار اور سابق وزیراعظم کا نام نہ ڈالے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ وزارت میں میرٹ پر فیصلے ہوتے ہیں۔ سابق وزیراعظم کے حوالے سے سوال ذاتی ہے اس لئے اس حوالے سے نیا سوال دیا جائے۔ جس پر سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ یہ درست ہے کہ آمر کے دور کے ایک آرڈیننس کے ذریعے ای سی ایل پر نام ڈالے جارہے تھے تاہم ای سی ایل کے حوالے سے ایک واضح پالیسی موجود ہے۔ 2013ءمیں ہم نے اس کو ریویو کیا اور اس حوالے سے نئی پالیسی بنائی۔ اس سے پہلے میاں بیوی کے جھگڑے پر بھی ای سی ایل میں نام ڈال دیا جاتا تھا‘ ہم نے اس کو سنٹرلائزڈ کیا اور اس حوالے سے وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کا کردار نہیں رہا۔ ہم نے طے کیا کہ وزارت اپنے طور پر کسی کا نام نہیں ڈالے گی۔ اگر کسی ادارے کی طرف سے ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لئے سفارش کی جاتی ہے تو وہ معاملہ کمیٹی کو بھجوایا جاتا ہے‘ اگر کمیٹی نے کسی جگہ پر فیصلہ کیا ہے تو اس بارے میں ایوان کو بتایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس حوالے سے کمیٹی کی سفارشات کو نظر انداز کیا گیا ہے تو پھر فیصلہ کہیں اور ہوا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے رکن نوید قمر نے سوال کیا کہ کچھ نیب کیسز میں تو ملزمان کے نام فوری طور پر ای سی ایل میں ڈال دیئے جاتے ہیں مگر نوازشریف اور ان کے بچوں کے نام نیب کی سفارش کے باوجود ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا، ای سی ایل سے متعلق یہ دہرا معیار کیوں ہے؟۔ اپوزیشن رکن کے سوال کا جواب دینے کیلئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر مملکت طلال چوہدری ایوان میں موجود نہیں تھے۔ کوئی اور وزیر بھی سامنے نہ آیا تو اچانک سابق وزیر داخلہ چودھری نثار کھڑے ہوگئے اور کہا کہ 2013ءسے پہلے ای سی ایل میں نام ڈالنے کیلئے سفارش چلتی تھی۔ دوسری طرف وزارت داخلہ نے شریف خاندان کے 5 ارکان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کی نیب کی درخواست مسترد کر دی۔ نیب کے قابل اعتماد ذرائع نے بتایا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف سمیت شریف خاندان کے متعدد ارکان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر نیب اور وزارت داخلہ میں تنازعہ شروع ہو گیا۔ نیب نے وزارت داخلہ سے نوازشریف‘ ان کے بیٹے حسن نواز اور حسین نواز‘ بی بی مریم صفدر اور داما کیپٹن (ر) صفدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی تھی۔ اس درخواست کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں چلنے والے کرپشن کے کیسز کا فیصلہ آنے سے قبل ان کے ملک چھوڑ کر جانے کے خدشے کے پیش نظر وزارت داخلہ کو ارسال کیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا تھاکہ وزارت داخلہ کو ان افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنا تھے لیکن وزارت میں معاملات کو دیکھنے والوں نے شریف خاندان کے ارکان کے بیرون ملک جانے کی بات آنے پر تعاون سے انکار کر دیا۔ وزارت کی جانب سے نیب کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ شریف خاندان کے ارکان کا نام ای سی ایل میں صرف عدالت کے کہنے پر ڈالا جائے گا۔ دوسری جانب نیب حکام نے وزارت داخلہ کے پیش کئے گئے جواز کو تاخیری حربہ قرار دیدیا۔ ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے ماضی میں مشتبہ افراد کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے نیب کی درخواست کبھی مسترد نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وزارت داخلہ نے اس معاملے پر وفاقی کابینہ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ ایڈیشنل سیکرٹری برائے وزارت داخلہ کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی عدالت‘ ٹربیونل اور ایجنسز کی تجاویز پرنام ای سی ایل میں ڈالنے یا نکالنے کا کام کرتی ہیں۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں کسی بھی شخص کا نام ڈالنے کیلئے طریق کار تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ نے سمری تیار کرلی ہے جس کی وفاقی کابینہ سے منظوری لے جائے گی۔ ذرائع کے مطابق سمری میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام ڈالنے یا نکالنے کا فیصلہ 4 رکنی وزارتی کمیٹی وفاقی کابینہ کی منظوری سے کرتی ہے۔ اس طریق کار کو پورا کرنے تک ملزم کے بیرون ملک فرار ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ وزارت داخلہ نے تجاویز دی ہیں کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے یا نکالنے کا حتمی اختیار وزیر یا سیکرٹری کو دیدیا جائے یا انہیں فہرست میں ردوبدل کی فوری ضرورت پر فیصلوں کا اختیار ہو اور ان کی توثیق بعد میں وفاقی کابینہ سے لی جائے۔ سمری میں وزارتی کمیٹی کے گزشتہ 739 فیصلوں کی توثیق اور ای سی ایل میں 13 نئے نام شامل کرنے کی منظوری بھی طلب کی گئی ہے۔ شریف خاندان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کرنے والے افسر کا تبادلہ کردیا گیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق شیرافگن نیازی کا تبادلہ اقتصادی امور ڈویژن میں کردیا گیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت داخلہ شیرافگن نیازی نے شریف خاندان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔
نجی ٹی وی دعویٰ
نوازشریف/ ای سی ایل