• news

نقیب قتل کیس : راﺅ انوار اچانک سپریم کورٹ پیش‘ گرفتار‘ کراچی منتقل‘ عدالتیں آزاد ہیں کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ)کراچی میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان شہری نقیب اللہ محسود کے فرضی مقابلے میں قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیرراﺅ انوار اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے جنہیں عدالت کے حکم پر پولیس نے گرفتار کرلیا گیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے راو¿ انوار کے وکیل کی جانب سے تفتیش کےلئے جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں جے آئی ٹی بھی تشکیل دےدی جس میں چار اعلیٰ پولیس افسران ولی اللہ دل، آزاد خان، ذوالفقار لاڑک اور ڈاکٹر رضوان شامل ہیں۔ بعدازاں سندھ پولیس نے اسلام آباد سے راﺅ انوار کو کراچی منتقل کردیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اسلام آباد میں نقیب اللہ قتل کے مقدمے کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت شروع کی تو سابق ایس ایس پی راو¿ انوار کو ایک سفید رنگ کی گاڑی میں عدالت لایا گیا۔ سیاہ کپڑوں میں ملبوس راو¿ انوار نے چہرے پر سرجیکل ماسک پہنا ہوا تھا۔ عدالت میں مقتول کے ورثاءکے علاوہ سندھ کے آئی جی اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ راﺅ انوار نے آ کر کہا کہ وہ عدالتی حکم پر خود کو پیش کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے قانون کے سامنے سرنڈر کرکے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے معطل ایس ایس پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جس دلیری سے آپ رہ رہے تھے اور جو خط آپ نے لکھے اس پر حیرت ہے، جو خط لکھے گئے ہیں ان کا تاثر درست نہیں۔ چیف جسٹس نے راو¿ انوار سے استفسار کیا کہ اتنے دن کہاں تھے؟ کیوں نہیں آئے؟ ہم نے موقع فراہم کیا تو کیوں نہیں سرنڈر کیا۔ اس پر راو¿ انوار عدالت کے سامنے خاموش کھڑے رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ راو¿ انوار کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کے مو¿کل حفاظتی ضمانت چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کوئی حفاظتی ضمانت نہیں دے رہے اور گرفتاری کے احکامات جاری کررہے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کمیٹی بنارہے ہیں۔ راو¿ انوار کو جوکچھ کہنا ہے وہ اس کے سامنے جاکر کہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ اتنے دلیر ہوگئے۔ عدالت کے سامنے سرنڈ نہیں کیا، مہلت دی پھر بھی نہیں آئے۔ اتنے دلیر ہیں کہاں چھپے ہوئے تھے۔ لوگوں کو گرفتار کرتے رہے خود کیوں چھپے رہے۔ عدالت نے آئی جی سندھ سے انکوائری کمیٹی کے ممبران کی تفصیلات بھی طلب کیں۔ راو¿ انوار کے وکیل نے کہا کہ انہیں سندھ پولیس سے اختلاف ہے کیونکہ پولیس ان کے مخالف ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس طرح آپ کی پولیس آپ کے مخالف ہوگئی، آپ اس پولیس کے ملازم ہیں اور وہی پولیس آپ کے مخالف ہوگئی۔ معطل ایس ایس پی کے وکیل نے استدعا کی کہ کمیٹی میں ایجنسیز کو شامل کیا جائے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سی ایجنسی کو شامل کیا جائے؟راو¿ انوار کے وکیل نے کہا کہ آئی ایس آئی اور آئی بی کو کمیٹی میں شامل کیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس سیدھا سیدھا ہے ان کا تفتیش سے کیا تعلق؟ مجھے معلوم ہے آپ یہ کس وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور کسی کا اثر نہیں لیتیں۔ ہمیں کسی سے اور سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کیا اور وقفے کے بعد ایک بار پھر سماعت کا آغاز کرتے ہوئے راو¿ انور کے بینک اکاو¿نٹس کو بھی دوبارہ بحال کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ سابق ایس ایس پی ملیر کے بینک اکاو¿نٹس بحال کر دئیے جائیں تاکہ ان کے بچوں کی روزی روٹی بحال ہو سکے اور جو تنخواہ انہیں جاتی تھی وہ بھی انہیں ملنی چاہیے۔ عدالت نے راو¿ انوار کے وکیل کی جانب سے تفتیش کےلئے جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔ سپریم کورٹ نے راو¿ انوار کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس خارج کردیا تاہم ان کا نام ای سی ایل میں برقرار رکھا گیا ہے جبکہ معطل ایس ایس پی کی گرفتاری کے احکامات نقیب اللہ قتل کیس میں جاری کیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ راو¿ انوار کے کیس کی تحقیقات آزادانہ ہوں گی۔ کیس کو کراچی ٹرانسفر کردیا جائے گا جب کہ کسی طرح کی عدالتی آبزرویشن اس کیس کو متاثر نہیں کرے گی۔ کیس کی سماعت کے موقع پر نقیب اللہ کے بزرگ عدالت میں موجود تھے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ یقین دہانی کرائیں کہ محسود قبیلے کی طرف سے راو¿ انوار کی جان کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ عدالت نے نقیب اللہ کے اہل خانہ سے راو¿ انوار کو نقصان نہ پہنچانے کےلئے حلف نامہ بھی لیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تحقیقات ہونے تک راو¿ انوار کو حفاظت میں رکھا جائے] وہ جب تک سندھ پولیس کی حراست میں ہیں ان کی حفاظت پولیس کی ذمہ داری ہے۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ کی جانب سے راو¿ انوار کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے جانے پر ایس ایس پی سکیورٹی نے انہیں احاطہ عدالت سے گرفتار کیا۔ سپریم کورٹ سے گرفتاری کے بعد سندھ پولیس نے راو¿ انوار کو اپنی تحویل میں لے لیا اور انہیں سخت سکیورٹی میں ریڈ زون میں سکیورٹی ڈویژن منتقل کردیا گیا جہاں سے انہیں پہلی دستیاب فلائٹ سے کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عدالت نے راﺅ انوار سے تفتیش کیلئے کوئی ٹائم فریم مقرر نہیں کیا۔ عدالت نے راﺅ انوار کی سکیورٹی یقینی بنانے کا بھی حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مفرور کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ نقیب اللہ کے والد نے کہا ہے کہ میرا بیٹا پاکستان کا بیٹا تھا، ادارے یقین رکھیں ہم پر امن لوگ ہیں۔ قانون کے مطابق ہی آگے بڑھیں گے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہم نے پہلے بھی قانون پر عمل درآمد کیا ہے آئندہ بھی کرینگے۔ انہوں نے کہا آئین اور قانون کے باہر کسی جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمیں سپریم کورٹ کے ذریعے انصاف ہوتا نظر آ رہا ہے۔راﺅ انوار کراچی جاتے ہوئے طیارے میں پولیس اہلکاروں کے ساتھ گفتگو کرتے رہے، طیارے میں بیٹھتے ہی انہوں نے اپنے گھر والوں کو فون کیا اور اپنی خیریت کی اطلاع دی، راﺅ انوار پولیس افسروں سے جے آئی ٹی کی تشکیل سے متعلق گفتگو کرتے رہے انہوں نے پولیس افسران کے ساتھ کراچی کی صورتحال پر بھی گفتگو کی راﺅ انوار دوران پرواز مطمئن اور خوش گپیاں کرتے رہے بعض مسافروں نے راﺅ انوار کے ساتھ سیلفی بنانے کی درخواست کی لیکن راﺅ انوار نے سیلفی بنوانے سے معذرت کرلی اس موقع پر نجی ٹی وی کے رپورٹر نے سوال کیا راﺅ انوار صاحب کیا محسوس کررہے ہیں راﺅ انوار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جو بھی ہوگا بہتر ہوگا اس سوال پر کہ آپ خیریت سے ہیں راﺅ انوار نے کہا کہ اللہ کی مہربانی ہے پولیس افسران نے مزید سوال کرنے سے روک دیا پولیس افسران نے کراچی پہنچنے پر راﺅ انوار کو آخر میں طیارے سے اتارا۔باقاعدہ تفتیش کے لئے آج کراچی کی متعلقہ عدالت میں پیش کرکے جسمانی ریمانڈ مانگا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ اسلام آباد میں خود کو سرنڈر کرنے والے راﺅ انوار کو سخت حفاظتی اقدامات کے ساتھ کراچی میں محفوظ مقام پر رکھا گیا ہے۔

راﺅ انوار

ای پیپر-دی نیشن