یوم پاکستان۔ فخر کامقام
یوم پاکستان ہر سال 23مارچ کو روائتی جوش وجذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔1940 میں لاہور میںاسی تاریخ کو قرار داد لاہور منظور کی گئی تھی جسکے نتیجے میں14اگست 1947¾ ءکو پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آیا۔ مسلم لیگ نے اپنا سالانہ جلسہ 22تا 24مارچ 1940ءمنٹو پارک لاہورمیں منعقد کیا تھا۔ یہ پارک برطانوی شخصیت لارڈ منٹو کے نام سے منسوب تھا اب اس پارک کا نام اقبال پارک ہے اور جلسہ گاہ کے مقام پر مینار پاکستان تعمیر کیا گیا۔ 23مارچ کو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے وہ تاریخی قرار داد منظور کرائی جسکی بنیاد پر برطانوی سامراج سے برصغیر ہند کے مسلمانوں کیلئے ایک آزاد ملک کا مطالبہ کیا گیا۔ گوابتدائی قراردار کے مسودے میں ”پاکستان“ کانام نہیں لیا گیا کیونکہ یہ نام چودھری رحمت علی نے بعد میں تجویز کیا تھا لیکن اسی قراردار میں دہرائے گئے عزم کے تحت پاکستان قائم ہوا۔
23 مارچ 1956 ءکو پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا اور پاکستان اسلامی مملکت کے نام سے پہچا نا گیا۔ اس دن کی یاد تازہ کرنے کی خاطر ہر سال پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اس دن ایک عظیم پریڈ منعقد ہوتی ہے۔ تینوں مسلح فوج کے چاق وچو بند د ستے صدر پاکستان اور قوم کو سلامی پیش کرتے ہیں۔ صوبوں کی جانب سے بھی نمائندگی ہوتی ہے۔روائتی انداز سے ہرصوبے کے فلوٹ انکی ثقافت کو خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ پاک فضائیہ اور بری فوج کے طیارے اور ہیلی کاپٹر سلامی دیتے ہوئے گذرتے ہیں۔ جدید اسلحے کی بھی نمائش ہوتی ہے۔ تینوں مسلح افواج کے پیرا شوٹ بردار دستے بھی رنگا رنگ پیرا شوٹ کے ذریعہ پریڈ گراﺅنڈ پہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آزادی حاصل کرنے کے فورا بعد پاکستان کومتعدد آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھارت کے مختلف حصوں سے مسلمانوں نے آزاد پاکستان کی جانب ہجرت کی توشدت پسند ہندو اور سکھ بلوائیوں نے مہاجرین کے قافلے پہ ہلہّ بول دیا۔ عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی نوجوانوں کو قتل کردیا گیااور ان کی جمع پونجی لوٹ لی گئی۔یہ لٹے پھٹے قافلے جب پاکستان پہنچے تو انہیں آباد کرنے کا بڑا مرحلہ تھا۔ بھارت نے پاکستان کے حصے کے اثاثے انہیں اد اکرنے میں لیت ولعل سے کام لیا۔
27 اکتوبر1947ءکو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں ۔بھارت کے غاصبانہ قبضہ سے کشمیر کو آزاد کرانے کی خاطر پاکستان نے اپنی فوج اور رضا کار روانہ کئے یوں پہلی کشمیر جنگ چھڑ گئی ۔ایک تہائی کشمیر آزاد کرالیا گیا لیکن بھارت نے اقوام متحدہ سے رجوع کرکے جنگ بندی کرالی۔ مقبوضہ کشمیر میں آج بھی بھارتی مظالم کے تحت معصوم کشمیری پس رہے ہیں اوروہاں کے باسی آزادی سے محروم ہیں۔ 1965ءاور1971ءمیں بھی بھارت نے پاکستان کیساتھ جنگ چھیڑی ۔1971ءکی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی بازوکٹ کر علیحدہ ہوگیا۔پاکستان کے دشمنوں کو گمان تھا کہ مغربی پاکستان بھی چند دنوں کا مہمان ہوگا لیکن باقی ماندہ پاکستان نہ صرف محفوظ رہا بلکہ اس نے ترقی کی گوابھی اسکے حصے میں کئی آزمائش اور امتحان باقی تھے۔ قدرتی آفات کے علاوہ پاک فوج نے چار مرتبہ منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔ 1979ءمیں روسی فوجوں نے افغانستان پہ قبضہ کر لیا اور اغلب تھا کہ پاکستان انکا اگلا ہدف ہو۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کرروسی فوجوں کا راستہ روکنے کی خاطر افغان مجاہدین کو تیار کیا۔ دیگر مسلمان ممالک سے رضاکارانہ طورپر آئے ہوئے مجاہدین نے روسی فوج کوپسپا ہونے پہ مجبور کیا۔ دس برس کی جنگ کے نتیجے میں تباہی پھیلی جس سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ پچاس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں آبسے۔ 1998ءمیں پاکستان کو بھارت کے ایٹمی تجربات کے جواب میں دھماکہ کرکے دنیا کوباور کرانا پڑا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے کیونکہ بھارت مسلسل پاکستان کو دھمکا رہاتھا۔ 9/11 کے حملوں کے نتیجے میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے افغانستان پہ حملہ کرکے اسکی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مغرب کا اتحادی بن جانے کا خمیازہ پاکستان کو بھی بھگتا پڑا۔ 70,000 سے زیادہ قیمتی جانوں کا نذارنہ دنیا پڑا۔ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرانے کی خاطر مختلف ملٹری آپریشن کرنے پڑے اور کامیابی حاصل ہوئی۔
ان تمام تر آزمائشوں کے باوجود پاکستان نے صنعت، زراعت، انفورمیشن ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداواروں میں خاطر خواہ ترقی حاصل کی۔ صنعتی شعبے میں پاکستان اپنے پاﺅں پہ کھڑا ہونے کے قابل ہوگیا اور معیشت کوفروغ دے رہا ہے۔ کمزور جمہوریت اور سیاسی حکومتوں کی بدعنوانی نے اقتصادی ترقی کو متاثر کیا پھر بھی2017ءکے اختتام پر ترقی کے مختلف اہداف یہ اشارہ دیتے ہیں کہ پاکستان صحیح راہ پر گامزن ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو 5.3 فیصد تھی۔2016 میں زراعت کے شعبے میں پاکستان کی کار گردگی متاثر کن نہ تھی لیکن2017 میں مکئی، کماد اور کپاس کی اچھی فصلوںکے باعث 3.5% اضافہ ہوا سروس سیکٹر میں 6.0% اضافہ ہوا جو کہ طے شدہ ہدف5.7 سے زیادہ تھا۔ صنعت وحرفت کے میدان میں 5.0 فیصد ترقی دیکھنے میں آئی ۔ گزشتہ تین برسوں میں پاکستان نے اقتصادی استحکام حاصل کیا۔ مالی خسارہ 8فیصد سے گھٹ کر 5فیصد تک پہنچ گیا۔ بین الاقوامی ذخائر 18بلین ڈالرتک پہنچے میں کامیاب ہوئے اور ترقی کی شرح 4.7فیصد تک بڑھ گئی۔ دفاعی پیداوار کے شعبے میں پاکستان نے جو اہداف حاصل کئے وہ قابل تحسین ہیں۔ مین بیٹل ٹینکس فریگٹیس Frigates، آبدوز اور لڑاکا، طیارے تیار کرنے سے پاکستان دفاعی صنعت میں نہ صرف خود کفیل ہوجائے گا بلکہ بین الاقوامی مارکیٹ میںانہیں فروخت کرکے کثیر زرمبادلہ بھی حاصل کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔پاک۔ چین اقتصادی راہداری کے عوض پاکستان کو معاشی ترقی کا نادر موقع حاصل ہوا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ، خصوصی اقتصادی زون کے انعقاد، نئی سٹرکیں، تجارتی مراکز تعلیمی ادارے صحت کی صحولیات، جدید مواصلاتی نظام کے انعقاد پاکستان کو اقتصادی وسعت کی نئی منزلوں سے ہمکنار کررہے ہیں اور پاکستان کیلئے روشن مستقبل کا وعدہ کرتے ہیں۔پاکستان کی بنیادی طاقت کا مرکز اسکی نوجوان نسل ہے جنہوں نے متعدد بین الاقوامی ریکارڈ قائم کرکے ملک کا سر فخر سے بلند کردیا۔ خواتین اور اقلیتیں بھی ملک کی تعمیر میں اپنا حق نبھارہی ہیں۔دہشت گردحملوں کے باعث پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ کھیل کے میدان میں بھی شدت پسندوں کے حملوں نے بین الاقوامی ٹیموں کو پاکستان کادورہ کرنے سے دور رکھا لیکن دہشت گردی پہ قابو پانے کے بعد اب پھر سے بین الاقوامی کھیل پاکستان کا رخ کررہا ہے۔پاکستانی ثقافت کے تابندہ نقوش قابل ستائش ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پاکستان کی ثقافت دنیا بھر میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال پاکستان کو ضرورت ہے کہ اپنی معدنیات کے وسائل سے وطن عزیز کو بھر پور فائدہ پہنچائیں۔
پاکستان کی مسلح افواج اسکی قوت ہیں اور اسکی حفاظت کی پاسبان۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان نے جوتجربہ حاصل کیا ہے اس سے دنیا بھی فیضاب ہونے کی خواہاں ہے۔ پاکستان نے تمام آزمائشوں کا بھرپور مقابلہ کیا ہے جسکے لئے ہر پاکستانی کا سرفخر سے بلند ہے۔