کالا باغ ڈیم‘ صوبائی رکاوٹ اور بھارتی سازش
سینئر قانون دان اے کے ڈوگر کی طرف سے دائر کردہ ایک رٹ پٹیشن پر کچھ عرصہ قبل لاہور ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کی جائے اور اس ڈیم کو مقررہ مدت کے اندر فعال کر دیا جائے لیکن حکومت نے اس فیصلے پر عمل نہیں کیا۔ پھر یوں ہوا کہ اے کے ڈوگر صاحب نے حکومت کے خلاف مذکورہ بالا حکم پر عمل نہ کرنے کے حوالے سے توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی۔ یہ درخواست 21 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس شاہد کریم کی عدالت میں زیرسماعت آئی تو محترم جج صاحب نے توہین عدالت کی درخواست پر وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی سے جواب طلب کر لیا ہے۔ اے کے ڈوگر نے عدالت کو بتایا کہ حکومت سیاسی بنیادوں پر ڈیم بنانے سے گریز کر رہی ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کو کالا باغ ڈیم بنانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ مشترکہ مفادات کونسل کے سربراہ وزیراعظم پاکستان ہیں جبکہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اس کونسل کے ارکان ہیں۔ عدالتی فیصلے کے باوجود وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے ابھی تک کوئی عمل درآمد نہیں کیا۔ وزیراعظم عدالتی حکم پر عمل نہ کر کے توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں لہٰذا ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ معزز عدالت نے اے کے ڈوگر صاحب کے اعتراضات سن کر وزیراعظم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے اور آئندہ تاریخ برائے مزید کارروائی 17 مئی مقرر کر دی۔
یہاں کچھ آبی حقائق کا تذکرہ ضروری ہے۔ ایک عالمی ادارے کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جہاں اگلے چند سالوں میں آبی قحط آنے والا ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان جو کہ ایک زرعی ملک ہے اس کی تمام کھیتیاں خشک ہونے لگیں گی۔
قحط آنے والا ہے آبی یہاں
خشک ہو جائیں گی ساری کھیتیاں
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری معیشت کی اصل بنیاد زراعت ہے۔ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد صنعتیں زرعی پیداوار کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان نے منگلا اور تربیلا ڈیم بنوائے۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے قبل پانی کی سالانہ اوسط آمد چودہ ملین ایکڑ فٹ تھی۔ جو ان ڈیموں کی تعمیر کے بعد 102.73 ملین ایکڑ فٹ تک پہنچ گئی۔ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پاکستانیوں کو یہ احساس تک نہیں کہ وہ کتنا زیادہ صاف پانی ہر روز ضائع کر رہے ہیں۔ کالا باغ ڈیم بننے کے بعد پاکستان میں صاف پانی کی پیداوار 140 ملین ایکڑ فٹ تک جا سکتی ہے۔ کالا باغ ڈیم کے پانی سے بالکل ارزاں نرخوں پر بجلی کی پیداوار ہو گی جس کے نتیجے میں ہماری صنعتوں اور کارخانوں کی ارزاں نرخوں پر بنی ہوئی اشیاءپوری دنیا میں برآمد ہو سکتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس ڈیم کی وجہ سے پاکستانی معیشت میں ہر سال پچھتر ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی دوسری سب سے بڑی افادیت یہ ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر کے بعد ملک میں ہر سال جو تباہ کن سیلاب آتے ہیں وہ رک جائیں گے۔ ہر سال آنے والے سیلابوں کی وجہ سے ملک بھر میں ہر سال تین سے چار سو بلین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب کے سبب ہر سال ڈیڑھ سے دو ہزار انسانی اموات بھی ہو رہی ہیں۔ ان سب سے بچا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ سیلاب کی تباہ کاری سے جتنی فصلات تباہ ہو رہی ہیں انہیں بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔حکومت پاکستان میں آنے والے برسراقتدار طبقات کو اپنا اقتدار بچانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ حکومتی طبقات اور مخالف سیاست دانوں کو اس حقیقت کا کچھ ادراک نہیں کہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے کالا باغ ڈیم نہ بنائے جانے کے سبب ہر سال اکیس ارب ڈالر مالیت کا صاف پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو رہا ہے جبکہ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس صرف دس فیصد پانی جمع کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 1847ءمیں ہر پاکستانی کو چھ ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جبکہ گزشتہ ستر سالوں کے دوران یہ آبی دستیابی صرف ایک ہزار کیوبک میٹر فی کس تک محدود ہو گئی ہے۔
اب آتے ہیں کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹوں کی طرف۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بعد صوبہ سندھ کو ملنے والے پانی میں تقریباً تیس فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے پانی کے حصے میں بھی اضافہ ہو گا۔ بلوچستان کے لئے ایک نہر کے ذریعے کالا باغ ڈیم سے پانی کی ترسیل کا ایک منصوبہ بھی موجود ہے۔ سب سے کم آبی اضافہ پنجاب کے حصے میں آئے گا۔ ان حقائق کے باوجود صوبہ سندھ اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے سیاسی رہنما کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس کی تعمیر میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ بھارت ایک آبی سازش کے تحت نہ صرف یہ کہ ہمارے دریا¶ں کا پانی ڈیم بنا کر روک رہا ہے بلکہ پاکستان کے صوبہ سندھ اور خیبر پختونخواہ میں پندرہ سے بیس کروڑ روپے ڈیم مخالف پاکستانیوں کو ہر سال خفیہ طور پر ادا کر رہا ہے۔ بھارت کی بدنیتی تو ظاہر ہے لیکن افسوس ان پاکستانیوں پر ہے جو بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور کالا باغ ڈیم کی سیاسی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایسے بدکردار پاکستانیوں کو بے نقاب کیا جانا چاہئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے حتمی فیصلے کے بعد کالا باغ ڈیم بنتا ہے یا نہیں۔