امریکہ کا فوجی پارٹنرشپ پر اصرار پاکستان سے کشیدگی کی بڑی وجہ ہے: خرم دستگیر
اسلام آباد (این این آئی) وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ امریکہ سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کی بنیادی وجہ امریکہ کا اکثر فوجی شراکت داری پر زور دینا ہے اور یہ کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ جمہوری انداز میں معاملات کو حل کرنے اور ایک دوسرے کے خدشات کو توجہ نہیں دی، امریکہ کی جانب سے منفی اقدامات کے باوجود پاکستان نے نہ تو افغانستان میں غیر ملکی افواج کےلئے سپلائی کے زمینی راستے اور نہ فضائی حدود بند کی ہے۔ امریکی ریڈیو کو انٹرویو میں انہوں نے سوال کیا کہ اس صورتحال میں امریکہ کے ساتھ مفید شراکت داری ہو سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جس ملک پر دھوکہ دینے کا الزام لگایا جاتا ہے تو بیک وقت اس کو ناٹو اتحاد سے باہر اتحادی ملک کہنا حیران کن ہے۔ 2018 میں تضادات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے کا الزام مسترد کرتے ہوئے امریکی جائزہ رپورٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں طالبان افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہیں۔ افغانستان کا تقریباً آدھا حصہ طالبان کے لئے محفوظ ٹھکانہ ہے تو لیکن امریکہ کی توجہ صرف پاکستان پر ہے۔ اگر افغانستان کے 45 فیصد علاقے کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا تو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور وہاں کون رہتا ہے اور وہاں کون آ رہا اور جا رہا ہے اور الزامات پاکستان پر لگائے جاتے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کا اپنے روایتی اتحادی چین پر انحصار بہت بڑھ گیا ہے اور روس کے ساتھ بھی تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ 2013 کے عام انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کی ضرورت تھی لیکن امریکہ نے پاکستان کو نظرانداز کیا۔ دستگیر نے کہا کہ 2018 میں امریکی فوجی اور اقتصادی امداد کی اہمیت کم ہوگئی جس کی وجہ سے چین نے پاکستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھا دیا۔ چین اس وقت اگے بڑھا جب پاکستان کو حمائت کی ضرورت تھی۔ پانچ سالوں میں ہم نے توانائی بحران اور دہشت گردی کا مسئلہ تقریباً ختم کر دیا ہے۔ اب پاکستان میں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور امریکہ دور ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر دفاع نے امریکہ پر زور دیا کہ اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے اور تعمیری شراکت داری کی پالیسی اپنائے۔
خرم دستگیر