• news

نوازشریف کے آف شور کمپنیوں‘ لندن فلیٹس‘ گلف سٹیل‘ العزیزیہ مل کا مالک ہونے کی کوئی دستاویزات نہیں: واجد ضیا

اسلام آباد (نامہ نگار) پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے احتساب عدالت کے روبرو اعتراف کیا ہے کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جس پر لندن فلیٹس کے مالک یا بینی فیشل اونر کے طور پر نوازشریف کا نام ہو، گلف سٹیل مل کی ملکیت بھی نوازشریف کے ہونے کی کوئی دستاویز نہیں،گلف سٹیل ملز کی فروخت کی رقم کے لین دین میں نوازشریف شامل نہیں تھے،:ایسی کوئی دستاویز نہیں کہ نواز شریف العزیزیہ مل چلاتے رہے یا ان کا اس کاروبار سے کوئی تعلق ہے، ہم نے موزیک فونسیکا سے براہ راست کوئی خط و کتابت نہیں کی‘ہم نے براہ راست بی وی آئی اٹارنی جنرل افس سے خط و کتابت کی‘بی وی آئی نے ایف آئی اے کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا،ایون فیلڈ پر اپرٹیزریفرنس کی سماعت آج بھی ہوگی۔ نواز شریف،مریم نوازاور کیپٹن صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔ خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کے حوالے سے نوازشریف کی ملکیت کی کوئی دستاویزات پیش کیں ؟ اس پر واجد ضیا نے کہاکہ نہیں ایسی دستاویزات ہمارے پاس نہیں اور نہ پیش کیں۔ ایون فیلڈ پراپرٹیز ، نیلسن اور نیسکول کی ملکیت تھیں۔ خواجہ حارث نے کہاکہ کوئی ایسی دستاویزات پیش کیں جن سے ثابت ہو کہ نواز شریف ایون فیلڈ پراپرٹیز کے بینیفیشل اونر ہیں۔ واجد ضیا نے کہاکہ ایسی دستاویزات نہیں جن سے ثابت ہو نواز شریف بینیفیشل اونر ہیں ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ کوئی ایسی دستاویزات کہ ماضی میں کبھی نوازشریف آف شور کمپنیوں کے بینیفیشل اونر تھے اس پر واجد ضیا نے کہاکہ نہیں ایسی کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔ خواجہ حارث نے کہاکہ ایف آئی اے اور بی وی آئی نے اس حوالے سے کوئی دستاویزات دی تھیں کہ نواز شریف ان کمپنیوں کے بینیفیشل اونر تھے ۔ واجد ضیا نے کہاکہ نہیں ایسی کوئی دستاویزات نہیں ملیں۔ واجد ضیانے کہا کہ کبھی کوئی گواہ ایسا پیش نہیں ہوا جس نے یہ کہا ہو کہ دو کمپنیوں کے بیرئر شیئرز کبھی بھی نواز شریف کے پاس رہے ہوں، لندن فلیٹس سے متعلق نواز شریف کے حوالے سے کسی بھی آفس میں کوئی خط و کتابت نہیں ملی۔ ایسی کوئی دستاویزات نہیں ملیں کہ کبھی نواز شریف نے لندن فلیٹس کے حوالے سے کوئی ادائیگی کی ہو ۔ ایسی بھی کوئی دستاویزات سامنے نہیں آئی کہ نواز شریف نے لندن فلیٹس کے یوٹیلیٹی بل ادا کئے ہوں،ایسا بھی کوئی بینک اکائونٹ سامنے نہیں آیا جس سے نواز شریف نے لندن فلیٹس کی خریداری کی ادائیگی کی ہو۔ تفتیش کے مطابق یہ درست ہے کہ لندن فلیٹس 1993ء سے 1995ء میں نیلسن اور نیسکول کے نام پر خریدے گئے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ نیلسن اور نیسکول کے ساتھ غیر سرکاری فرم موزیک فونسیکا ڈیل کر رہی تھی۔ اس پر واجد ضیا نے کہاکہ یہ درست ہے کہ یہ غیرسرکاری مگر رجسٹر ڈ فرم ہے ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ موزیک فونسیکا نے کوئی ایسی معلومات دیں کہ نواز شریف ان کمپنیوں کے بینیفیشل اونر ہیں۔ واجد ضیا نے کہاکہ نہیں کوئی ایسی معلومات نہیں دی گئیں۔دوران تفتیش بھی ایسی کوئی دستاویزات نہیں ملیں جس سے ظاہر ہو کہ نوازشریف نیلسن اور نیسکول کے رجسٹرڈ ڈائریکٹر یا نامزد ڈائریکٹر یا شیئر ہولڈر یا نامزد شیئر ہولڈر ہوں، ہم نے موزیک فونسیکا سے براہ راست کوئی خط و کتابت نہیں کی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم رولز آف گیم طے کرتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ پہلے سوال کا جواب آئے پھر بعد میں آپ وضاحت کر سکتے ہیں۔ واجد ضیاء نے کہاکہ ابتدائی طور پر بی وی آئی کو ایف آئی اے نے خط لکھا۔ بی وی آئی نے ایف آئی اے کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ والیم چار کا صفحہ 53 اور 54 دیکھیں کیا یہ خط بی وی آئی کو ایف آئی اے نے نہیں لکھا جس پر واجد ضیاء نے کہاکہ جوابی خط مجھے براہ راست نہیں ملا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ آپ جتنا مرضی گھمائیں میرا سوال وہیں ہے ۔ واجد ضیاء نے کہاکہ خط ڈائریکٹر فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کے دستخط کے ساتھ تھا۔ بات واضح نہیں ہو رہی تو مجھے ایک بات کہنے دیں، خط جے آئی ٹی کے نام لکھا گیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ خط کے مندرجات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ خط اٹارنی جنرل آفس سے بھیجا گیا۔ واجد ضیاء نے کہاکہ یہ درست ہے کہ خط کے مندرجات سے کہیں ظاہر نہیں ہو رہا کہ یہ اٹارنی جنرل آفس سے بھیجا گیا۔ واجد ضیاء نے کہاکہ کوئی ایسی دستاویزات سامنے نہیں آئیں کہ 2012ء میں بی وی آئی ایف آئی اے اور موزیک فونسیکا کے درمیان خط و کتابت ہوئی۔ خواجہ حارث نے استفسار کیا کہ پاکستان سے کس کے کہنے پر 2012ء میں خط و کتابت ہوئی۔ واجد ضیاء نے کہاکہ ایسی کوئی دستاویزات نہیں جو ظاہر کرے کہ بی وی ائی ایف ائی اے نے 2012ء میں معلومات کسے بھیجیں۔2012ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر داخلہ رحمان ملک تھے۔ جزوی طور پر یہ درست ہے کہ بینیفیشل اونر کا نتیجہ ان 2012ء اور 2017ء کے دو خطوط کی بنیاد پر نکلا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ رضا کارانہ جواب دے رہے ہیں اسے ریکاڈ کا حصہ بنا لیں۔ واجد ضیاء نے کہاکہ ان دو خطوط اور وہاں کے قوانین کے مطابق بینیفیشل اونر کا نتیجہ نکالا۔ رجسٹرڈ آف شئیر ہولڈرز کی اصل دستاویزات کبھی نہیں دیکھی۔ خواجہ حارث کے پوچھنے پر واجد ضیاء نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ نواز شریف گلف سٹیل کے مالک یا شیئر ہولڈر ہوں، جے آئی ٹی کے سامنے صرف طارق شفیع نے کہا کہ گلف سٹیل کا شیئر ہولڈر شریف خاندان ہے، کسی گواہ نے نہیں کہا کہ نواز شریف گلف سٹیل کے مالک یا شئیر ہولڈر ہیں،کوئی دستاویزی ثبوت بھی نہیں ملا کہ نوازشریف گلف سٹیل ملز کے مالک ہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ کیاکسی نے نوازشریف کا نام ایون فیلڈ پراپرٹیز،گلف اسٹیل ملزمیں لیا؟دوران تفتیش کسی نوازشریف کانام کسی ٹرانزیکشن میں ہونیکی گواہی دی؟واجد ضیاء نے کہا کہ نہیں ،تینوں پہلوں میں کہیں بھی نواز شریف کا نام موجود نہیں، خواجہ حارث نے پوچھا کہ قطری خط میں کسی بھی پہلو سے نواز شریف کا نام موجود ہے؟ تیسرا پہلو 2006ء میں ایون فیلڈ پراپرٹیز کی سیٹلمنٹ سے متعلق ہے،دوسرا پہلو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ تقسیم ہوا، خواجہ حارث نے کہا کہ قطری خط کاپہلا پہلویہ ہے کہ 1980ء میں سرمایہ کاری ہوئی ، سپریم کورٹ میں جو قطری خطوط آئے ان کے 3پہلو ہیں، خواجہ حارث کے پوچھنے پر واجد ضیا نے کہا العزیزیہ سٹیل ملز میاں شریف نے حسین نواز، رابعہ شہباز اور عباس شریف کے نام کی،کوئی ایسی دستاویز نہیں کہ رابعہ شہباز اور عباس شریف العزیزیہ گئے ہوں، تین پارٹنر تھے تو پیسے تینوں میں تقسیم کیوں نہیں ہوئے،جے آئی ٹی نے اس معاملہ پر رابعہ شہباز کو کبھی طلب نہیں کیا،جے آئی ٹی نے العزیزیہ کا نفع ملنے یا نہ ملنے سے متعلق پوچھنے کے لئے بھی طلب نہیں کیا، عباس شریف اور ان کے خاندان کے کسی فرد کو بھی جے آئی ٹی نے طلب نہیں کیا۔ جج محمد بشیر نے کہا کہ احتساب عدالت پہلے ایون فیلڈریفرنس کومکمل کریگی پھردیگرریفرنس سنیں گے،وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ امید ہے جمعہ تک جرح مکمل ہوجائے گی،پاناماجے آئی ٹی کیسربراہ کابیان پڑھنے کے بعدمزیدجرح کرونگا، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ابھی میں نے واجد ضیا کا بیان نہیں پڑھا،وہ سوالات کیے جوذہن میں تھے،واجد ضیانے جورضاکارانہ طورپرباتیں کیں ابھی ان پربھی جرح کرنی ہے، جج محمدبشیر نے کہا کہ ابھی تو مریم نوازکے وکیل امجد پرویز نے بھی جرح کرنی ہے، فاضل جج نے کہا کہ کیا آپ کچھ مختصر جرح نہیں کرسکتے؟ جتنا ہوسکتا ہے مختصرکریں، عدالت نے ایون فیلڈ پراپرٹیزکی سماعت آج 12بجے تک ملتوی کردی، آج فلیگ شپ اور العزیزیہ ضمنی ریفرنسز پر سماعت نہیں ہو گی۔

ای پیپر-دی نیشن