قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے پر جے آئی ٹی میں اتفاق نہ ہوسکا : واجد ضیا
اسلام آباد(نا مہ نگار) شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں استغاثہ کے اہم گواہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا نے انکشاف کیا ہے کہ قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے کے معاملے پرجے آئی ٹی ممبران میں اتفاق نہیں ہوا تھا، قطری شہزادے حمد بن جاسم نے اپنے پہلے دو خطوط کے متن اور دستخط کے علاوہ شریف خاندان کی سرمایہ کاری اور کاروبار کی تصدیق کی، ہم نے قطری شہزادے کو تمام متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کا کہا، حمد بن جاسم نے کہا کہ پاکستان نہیں آسکتا،اس نے تجویز دی کہ جے آئی ٹی ارکان دوحہ یا قطر آجائیں، حمد بن جاسم نے کہا کہ سوالنامہ بھجوا دیں، قطری شہزادے کو سوالنامہ بھجوانے کے معاملے پر پھر سپریم کورٹ کے پانامہ بنچ سے رائے لی جس پررجسٹرارآفس سے فون آیا تفتیش کا معاملہ ہے ،جے آئی ٹی خود فیصلہ کرے۔ سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر اور خواجہ حارث کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ عدالت اتنی بے بس کیسے ہوسکتی ہے کہ گواہ سے یہ بھی نہیں کہہ سکے کہ وہ سوالوں کا جواب دے۔ جمعرات کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی۔ سماعت کے سلسلے میں میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن(ر) صفدرعدالت میں پیش ہوئے جس کے تھوڑی دیر بعد ہی حاضری لگانے کے بعد عدالت نے انہیں جانے کی اجازت دے دی۔سماعت کے آغاز پر جج محمد بشیر نے واجد ضیا سے استفسار کیا کہ کیا آپ متعلقہ ریکارڈ لائے ہیں؟اس پر واجد ضیا نے جواب دیا جی لایا ہوں۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کا آغاز کرتے ہوئے واجد ضیا سے قطری شہزادے سے خط وکتابت پرسوالات کیے۔ واجد ضیا نے بتایا کہ حمد بن جاسم کو 13مئی 2017 کو پہلا خط لکھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اس خط میں آپ نے حمد بن جاسم کوجے آئی ٹی میٹنگ میں آنے کا کہا؟ خط میں حمد بن جاسم سے سپریم کورٹ کوپہلے لکھے گئے دوخطوط کی تصدیق کا بھی کہا۔اس پر واجد ضیا نے جواب دیا کہ جی، میں نے ایسا کیا لیکن اس خط میں مزید ریکارڈ اور اضافی دستاویزات جمع کرانے کا بھی کہا تھا۔خواجہ حارث نے پوچھا کہ آپ نے حمد بن جاسم کے دونوں خطوط پڑھنے کے بعد متعلقہ ریکارڈ لانے کا کہا تھا؟ واجد ضیا نے کہا کہ نہیں، میں نے صرف خطوط کی بنیاد پر نہیں، تمام اضافی دستاویزات لانے کا کہا تھا، متعلقہ اضافی دستاویزات صرف خطوط کی بنیاد پرنہیں مانگی تھیں، مثلا ورک شیٹ اور ٹرانزیکشن کے سپورٹنگ دستاویزات بھی مانگیں۔خواجہ حارث نے واجد ضیا سے پوچھا کہ مثلا میں کیا کیا دستاویزات شامل ہیں؟ واجد ضیا نے کہا کہ کوئی بھی بینکنگ ریکارڈ اور خط کا کوئی بھی معاہدہ، جوٹرانزیکشن کوسپورٹ کرے۔نوازشریف کے وکیل نے پوچھا کہ کوئی اضافی دستاویزات آپ کے ذہن میں تھیں؟ واجد ضیا نے کہا کہ نہیں، یہ خصوصی طور پر نہیں، میرا مطلب تمام متعلقہ ریکارڈ سے متعلق تھا۔خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں مطلب سے غرض نہیں براہ راست سوال کے جواب چاہئیں۔اس دوران نیب کے پراسیکیوٹر سردار مظفر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کوجواب دینے دیا جائے، مکمل اور پورا جواب دینے دیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ طریقہ درست نہیں کہ میری بات کے دوران نیب پروسیکیوٹر اعتراض کرنا شروع کر دیں جس پر سردار مظفر نے کہا کہ ہم آپ کی مرضی کے پراسیکیوٹر نہیں ہیں اس لیے آپ یہ بات کر رہے ہیں، آپ تو یہی چاہتے ہیں کہ پراسیکیوٹر آپ سے کچھ نہ کہے۔اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر اور خواجہ حارث کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ عدالت اتنی بے بس کیسے ہوسکتی ہے کہ گواہ سے یہ بھی نہیں کہہ سکے کہ وہ سوالوں کا جواب دے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آپ عدالت اور پراسیکیوٹر پر چڑھائی کر دیتے ہیں، ہم بھی آپ کی طرح یہاں اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے نیب کے گواہ واجد ضیا کو وقفے کے دوران پولیس رولز 1861کا جائزہ لینے کی ہدایت کردی۔ رجسٹرارسپریم کورٹ نے فون پربتایا یہ اہم معاملہ ہے،جے آئی ٹی خود فیصلہ کرے، جے آئی ٹی خط میں یہ نہیں لکھا کہ اتفاق نہ ہونے پر سپریم کورٹ کو آگاہ کر رہے ہیں۔واجد ضیا نے بتایا کہ حمد بن جاسم نے کہا تھا کہ پاکستان نہیں آسکتا، حمد بن جاسم نے تجویز دی کہ جے آئی ٹی ارکان دوحہ یا قطر آجائیں، حمد بن جاسم نے کہا کہ سوالنامہ بھجوا دیں، جے آئی ٹی ٹیم میں سوالنامہ پراتفاق نہ ہوسکا، پھر جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا کہ سوالنامہ ابھی نہیں بھیجا جائے گا۔واجد ضیا نے بتایا کہ قطری شہزادے نے لکھا کہ جے آئی ٹی ممبران دوحہ آنے کے لیے تیار ہیں تو سوالنامہ پہلے سے بھجوا دیا جائے لیکن میں نے اپنی 29سال کی پولیس سروس کے دوران کبھی کسی گواہ کو پہلے سے سوال نامہ نہیں بھجوایا۔ واجدضیا نے کہا کہ یہی ہوتا ہے کوئی تگڑا ہو تو اسے سوالنامہ بھجوا دو ورنہ تفتیش کیلئے بلا لو، جے آئی ٹی میں بتایاگیاکچھ اداروں میں تفتیش سے قبل سوالنامہ بھجوایا جاتا ہے۔ واجدضیا نے کہا کہ ان کو قطر ہائی کمیشن میں بیان رکارڈ کرانے کا کہا، یہ بات اس لیے کہی بیرون ممالک پاکستان ہائی کمیشن کو پاکستانی سرزمین تصورکیا جاتا ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ 22جون 2017 کوجے آئی ٹی نے حمدبن جاسم کو تیسرا خط لکھا،سخت شرائط رکھیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے لکھا قطرمیں تحقیقات صرف پاکستانی ہائی کمیشن میں ہوں گی،آپ نے خط میں جان بوجھ کراتنی سخت شرائط رکھیں تاکہ وہ بھاگ جائیں۔ واجدضیا نے کہاکہ جے آئی ٹی نے تصدیق کیلیے نوٹس یاخط نہیں لکھا،خواجہ حارث نے کہا کہ جس کے خط پردستخط ہیں، کیا اسکوتصدیق کیلیے نوٹس یاخط بھیجا؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جی یہ بات درست ہے کہ جے آئی ٹی نے تصدیق کے لیے کوئی خط نہیں لکھا، خواجہ حارث نے پوچھا کہ آپ نے موزیک فونسیکا، بی وی آئی کے ا ے جی اورایف آئی اے کونہیں لکھا؟ واجد ضیاء نے کہا کہ جی یہ بات بھی درست ہے کہ سپورٹنگ ڈاکیومنٹ طلب نہیں کیاگیا،خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا جے آئی ٹی نے سپورٹنگ ڈاکیومنٹ طلب نہیں کیاتھا؟ واجد ضیاء نے کہا کہ نہیں جے آئی ٹی نے سپورٹنگ ڈاکیومنٹ طلب نہیں کیاتھا۔استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جرح جاری تھی کہ عدالت نے سماعت آج صبح دس بجے تک ملتوی کر دی۔