اپنی قابل احترام قوم کیلئے مخلصانہ گزارشات
مکرمی! میرے ایک دوست نے چائنا میں ایک عورت کو ایک پلازے کے سامنے سے چند کاغذ کے ٹکڑے اٹھاتے ہوئے دیکھا، معلوم ہوا کہ یہ پلازے کی مالک ہے اور اپنے ملک میں گندگی کو پسند نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں گھر میں صفائی کرکے کوڑا کرکٹ باہر گلی میں پھینک دیا جاتا ہے جیسے خدانخواستہ گلی ہندوستان کی ہے۔ اس بارے میں سوچنا ضروری ہے کیونکہ صفائی میں آدمی خدائی ہے۔ دوسرے یہ کہ ملک کا بنا ہوا مال استعمال کرنا چاہیے اور بیرونی مال کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس طرح سے ملکی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور ملک عزیز ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ دھینگا مشتی کرکے اپنا کام نکالنے کی بجائے قطار میں کھڑا ہونا چاہیے۔ تیسرا یہ کہ سب کو معلوم ہے کہ رشوت کا دینا اور لینا قرآن مجید میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں پر ہر شخص تقریباً یہی سوچتا ہے کہ میں رشوت دے کر کوئی بھی کام نکال سکتا ہوں۔ اس کی زندہ مثال سینٹ کے الیکشن ہیں جہاں جو خریدوفروخت ہوئی سب جانتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ہم رسوا ہوکر رہ گئے۔ جب ضمیر ہی مردہ ہو جائیں تو اس قوم کا کیا بنے گا۔ حرف آخر کے طور پر انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والے یہ یاد رکھیں کہ ہزاروں یہاں اپنی شان دکھاتے ہوئے آئے، ان بے چاروں کے سائے دم بھر کیلئے ناچ گئے۔ وہ بھول گئے تھے کہ دنیا ہے سرائے، ’’آتا ہے کوئی صبح تو جاتا ہے کوئی شام‘‘ کاش ہمیں اچھا پاکستانی بننے کی توفیق نصیب ہو جائے۔ (منظر شفیع سینئر ایڈووکیٹ گلشن راوی لاہور)۔