چاہ بہار منصوبہ سی پیک کا حریف نہیں ہے: سابق ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی
کراچی (اے این این ) ایران کے سابق وزیرِ خارجہ کمال خرازی نے کہا ہے کہ ایران کا چاہ بہار منصوبہ اور اس کے تحت سڑکوں اور ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر کا مقصد ایران کی معیشت کو مضبوط کرنا ہے، جبکہ اس کا پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)کا 'حریف منصوبہ' ہونے کا تاثر درست نہیں ہے۔وہ کراچی میں صحافیوں، سابق اور حاضر سروس سفارتکاروں اور تحقیق کے طلبا سے خارجہ پالیسی تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں ایک گول میز سیشن میں گفتگو کر رہے تھے۔ خرازی کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ ہندوستان نے چاہ بہار میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے، مگر یہ منصوبہ خطے کے تمام ممالک کے لیے ایک کھلا پلیٹ فارم ہے۔ "چاہ بہار منصوبے کا مقصد ایران کو وسطی ایشیا سے منسلک کرنا ہے تاکہ ایرانی معیشت مضبوط ہو سکے۔" ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ کافی عرصے سے زیرِ غور تھا، اس لیے اس کے آغاز کو سی پیک کے آغاز سے جوڑنا درست نہیں ہے۔"ہم ہندوستان کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ اور ہندوستان بھی چاہ بہار میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، مگر ہم نے منصوبے پر ہندوستان کو امتیازی حقوق نہیں دیے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ ایران اقتصادی شراکت داریاں قائم کرتے ہوئے "ہندوستان اور خطے میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو مدِنظر رکھتا ہے۔""ہم نے ہندوستان پر کئی دفعہ مسئلہ کشمیر کو پرامن اور منصفانہ طریقے سے حل کرنے کے لیے زور دیا ہے۔ ہم اس 70 سال پرانے تنازعے کو حل کرنے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالث بننے کے لیے بھی تیار ہیں مگر ہمیں کبھی بھی ہندوستان سے اس پر مثبت جواب نہیں ملا ہے۔"انہوں نے کہا کہ پر اگر ہم اقتصادی شراکت داریوں کی بات کریں تو پاکستان کے بھی امریکا سے تعلقات ہیں جس نے ہم پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، مگر ایران اس کا برا نہیں مناتا۔ان کے مطابق پاکستان اور ایران کے درمیان دو طرفہ تجارت کئی وجوہات کی بنا پر مشکلات کا شکار ہیں جن میں ایک وجہ پاکستانی بینکوں کا امریکی پابندیوں کے خوف سے ایران کے ساتھ تجارت کرنے میں ہچکچاہٹ بھی شامل ہے۔سابق ایرانی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو متاثر کرنے والی اہم ترین وجوہات میں ہے ایک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی حکومتیں امریکا کے ساتھ ڈیل نہ کرنے والے چھوٹے پاکستانی بینکوں کو ایران کے ساتھ تجارت کے لیے بااختیار بنانے پر بات چیت کر رہی ہیں تاکہ دو طرفہ تجارت کو بڑھایا جا سکے، جبکہ دونوں ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت کا معاہدہ زیرِ بحث ہے اور منظوری کے بعد اس سے مزید کاروبار کے لیے دروازے کھلیں گے۔ "ہم نے گیس پائپ لائن پراجیکٹ کی ایرانی جانب تعمیر مکمل کرلی ہے، پر بظاہر حکومتِ پاکستان بین الاقوامی دبا میں ہے، جس کی وجہ سے منصوبہ آگے نہیں بڑھ رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کو [افغانستان میں استحکام کے لیے] کردار ادا کرنا ہوگا کیوں کہ خطے کے تمام ممالک اس تنازعے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکی حملے کے بعد عراق کی مدد کی اور ہم شام کی بھی مدد کر رہے ہیں، مگر دونوں ممالک کی حکومتوں نے ایران سے شدت پسند تنظیم داعش کو شکست دینے کے لیے مدد کی درخواست کی تھی، یہ اس وقت مداخلت کے زمرے میں آتی جب ہم ان کے بلائے بغیر وہاں پہنچ جاتے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو ایک طویل عرصے تک مشکلات میں ڈالے رکھا مگر اب یہ ان کئی ممالک کی معیشتوں سے بھی بہتر ہے جن پر امریکی پابندیاں نہیں ہیں۔