ایک کون آئسکریم میں کتنا سکون تھا!
پاکستان کے اساتذہ کی تاریخ میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل پروفیسر اشفاق علی خاں بہت ہی قابل احترام نا م ہے۔ وہ شاید پہلے مسلمان طالب علم تھے جنھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کے امتحان میں گولڈ میڈل لیا۔ جب وہ کیمبل پور کالج میں پرنسپل تھے تو اکثر دوست احباب کے لئے گپ شپ کا اہتمام کرتے۔ ان محفلوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی شریک ہوتے جو بعد میں تاریخ کے روشن ستارے بنے۔ جن میں ایک نام قدرت اللہ شہاب کا بھی ہے۔ گویا پروفیسر اشفاق علی خاں کی زیر سر پرستی سجنے والی وہ بیٹھکیں زندہ سوچوں اور کھلے ذہنوں کے Think Tank تھے۔ ایک مرتبہ پروفیسر اشفاق علی خاں نے بتایا کہ جب وہ کیمبل پور کے کالج میں پرنسپل تھے تو طلبہ کی شرارت کا ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے وہ بہت محظوظ ہوئے۔ ہوا یوں کہ اس وقت اس کالج میں لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے پڑھتے تھے۔ کلاس روم میں سیٹوں کی ترتیب کے مطابق لڑکوں کو آگے بیٹھنا ہوتا تھا جبکہ لڑکیاں پچھلی نشستوں پر بیٹھتی تھیں۔ گرمیوں کے دن تھے کہ ایک نوجوان لیکچرر میرے پاس آئے اور بولے : ’’سر!آپ میرے ساتھ کلاس روم تک چلئے میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔‘‘ پروفیسر اشفاق علی خاں کچھ تذبذب کے بعد نوجوان لیکچرر کے ساتھ ہو لئے۔ جب دونوں استاد کلاس روم میں داخل ہوئے تو چھٹی ہو جانے کے باعث نشستیں خالی تھیں۔ نوجوان لیکچرر نے پروفیسر اشفاق علی خاں کو بتایا کہ ’’کچھ دنوں سے میں دیکھ رہا تھا کہ جب میں کلاس میں لیکچر دے رہاہوتا ہوں تو پچھلی نشستوں پر بیٹھی ہوئی لڑکیاں پاس والی کھڑکی کے کونے میں دیکھتی رہتی ہیں اور منہ میں دوپٹہ دبا کر ہنستی جاتی ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ انھیں ڈانٹا لیکن وہ بے ساختہ ایسا کرتی رہیں۔ آج کلاس ختم ہونے کے بعد میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں خود جا کر کھڑکی کے اس کونے کو دیکھوں جہاں سے لڑکیوں کو ہنسنے کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ میں اس جگہ پہنچا اور عین اسی سمت دیکھا تو چونک گیا۔ آئیے سر آپ بھی اس جگہ بیٹھ کر دیکھئے۔‘‘ پروفیسر اشفاق علی خاں کہتے ہیں کہ میں انہی نشستوں پر جاکے بیٹھ گیا جہاں بتایا گیا تھا اور نظر اوپر اٹھائی تو ’’اوئے اوئے‘‘ کہتے ہوئے اٹھ گیا کیونکہ وہاں کسی من چلے نوجوان نے لڑکے کی ایک ایسی تصویر بنا رکھی تھی جس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ آنکھ کے اشارے سے لڑکی کو اپنے پاس بلا رہا ہے۔ یہ تصویر جہاں ایک عمدہ مصوری کا نمونہ تھی وہیں جوانی کی شرارت بھی ۔‘‘ دیکھا جائے تو پروفیسر اشفاق علی خاں کے بتائے ہوئے اس واقعے میں نہ تو تصویر بنانے والا حد سے گزرا اور نہ ہی اسے چادر اور چار دیواری کے خلاف سازش کہہ کر ہنگامہ کیا گیا۔ نہ تو نوجوان لیکچرر نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنایا اور نہ ہی پرنسپل نے اسے امن عامہ خراب کرنے کا اقدام کہہ کر طلبہ کو ہراساں کیا بلکہ اپنی اپنی جگہ سب اس شرارت سے ammuseہوئے۔ بڑے اساتذہ کے شاگرد بھی بڑے ہوتے ہیں۔ جہاں علم ہو وہاں سکون بھی ہوتا ہے۔ آئیے اسی طرح کی ایک اور بات سنتے ہیں۔ تاریخ کے ایک سینئر پروفیسر سید محمد ذوالقرنین زیدی نے بوڑھی انگلیوں سے جوانی کی یادوں کو ٹٹولنے کی کوشش کی اور اپنا ایک دلفریب قصہ سنایا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ راولپنڈی میں رہائش پذیر تھے۔ گھر سے اصغر مال کالج جاتے ہوئے انھیں اکثر ایک لڑکی کا سامنا ہوتا جو خود بھی طالب علم لگتی تھی۔ برسوں تک آمنے سامنے آنے کے باوجود کبھی بات نہیں ہوئی تھی۔ وقت گزرگیا، پروفیسر صاحب نے پڑھائی مکمل کی اور بعض ذاتی وجوہات کی بناء پرراولپنڈی کو چھوڑ کر بہاولپور جا کر رہائش پذیر ہو گئے۔ نئی جگہ تھی اور زیادہ واقفیت بھی نہ تھی۔ دل بہلانے کے لئے میڈیا اور موبائل فون جیسی ایجادات کا ابھی دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ لہٰذا کام کے اوقات کار کے بعد سڑک ناپنے یا شام کو ریلوے سٹیشن کے ٹی سٹال پر چائے پینے کے علاوہ کوئی مصروفیت نہ تھی۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ ’’ایک دن شام کو میں ریلوے سٹیشن کے ٹی سٹال پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ پلیٹ فارم پر روانگی کے لئے ریل گاڑی تیار کھڑی تھی۔ نہ جانے کیوں مجھے کالج کے رستے میں ملنے والی وہ لڑکی یاد آگئی۔ راولپنڈی اور بہاولپور کی دوری ، برسوں کا فاصلہ اور نا آشنائی کے پچھتاوے کے باوجود مجھے اس وقت اس لڑکی کا احساس بہت بھلا لگا۔ میں اسے چائے کے ساتھ ایک سویٹ یاد کے طو رپر پی گیا۔ میں نے جلدی جلدی چائے کے پیسے دیئے اور واپس مڑا۔ عین اس وقت گارڈ نے سیٹی بجائے۔ میری نظریں غیر ارادی طو رپر سامنے کھڑے ڈبے پر گئیں تو میں چکرا کر رہ گیا۔ راولپنڈی اور بہاولپور کی دوری ختم ہونے والی تھی۔ برسوں کا فاصلہ مٹ رہا تھا۔ نا آشنائی کا پچھتاوا ختم کرنے کا موقع موجود تھا۔ سامنے وہی لڑکی بیٹھی تھی اور مجھے دیکھ رہی تھی لیکن نہ اس نے مجھے کچھ کہا، نہ میں نے اسے کچھ بتایا۔ ریل گاڑی ہمیں اور کتنا وقت دیتی؟ ڈبہ رینگنے لگا۔ ریل گاڑی تیز ہوئی اور دور ہو گئی۔ میں سٹیشن سے باہر آ گیا۔ اس دن کے بعد سے آج تک وہ لڑکی صرف میری یادوں کے پاس ہے۔‘‘ پروفیسر صاحب کی اس یاد کی طرح ایسی یادیں کتنی خوبصورت ہوتی ہی جن میں گمنام پیار ہو مگر شرمندگی نہ ہو۔ سکون ہی سکون ہو۔ ایک قصہ میں اپنا سناتا ہوں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب صرف PTVہوتا تھا جو چند گھنٹے نشریات دینے کے بعد تھک جاتا اور کئی گھنٹے آرام کرتا۔ کسی کسی کے گھر کالے رنگ کا وزنی ٹیلی فون ہوتا جس پر اتنا اونچا بولنا پڑتا کہ دوسرے محلے تک آواز ریسیور کے ساتھ ساتھ براہ راست بھی پہنچ جاتی۔ جون کی چلچلاتی دھوپ تھی۔ لاہو رکی لبرٹی مارکیٹ سنسان پڑی تھی۔ دکاندار اور گاہک شام کے منتظر تھے۔ نکڑ پر موجود کتابوں کی دکان سے نکل کر میں نے بس سٹاپ تک جانا شروع کیا تو برآمدے کی سیڑھیوں پر ہی سورج کی آگ کو محسوس کر کے رک گیا۔ ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ سامنے ایک نوجوان سائیکل سوار نمودار ہوا جس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی۔ دونوں نہ تو زیادہ تعلیم یافتہ لگ رہے تھے اور نہ ہی متوسط۔ دونوں سواروں نے لبرٹی مارکیٹ کے پارک کے ارد گرد سائیکل پر دو، تین چکر لگائے۔ پوری لبرٹی مارکیٹ میں اس وقت واحد یہی ٹریفک تھی۔ اس کے بعد وہ دونوں بُک شاپ کے قریب کون آئسکریم مشین کے پاس آ کر رکے۔ لڑکی کچھ فاصلے پر کھڑی رہی جبکہ نوجوان نے جا کر ایک کون آئسکریم لی اور واپس لڑکی کے پاس آ گیا۔ دونوں نے باری باری ایک ہی کون آئسکریم کھانی شروع کر دی اور باتیں کرنے لگے۔ گرمی اتنی شدید تھی کہ دکاندار اپنے شٹر ڈائون کیے بیٹھے تھے۔ میں بس سٹاپ تک جانے سے ہچکچا رہاتھا۔ جہاں وہ دونوں کھڑے تھے وہاں کوئی سایہ بھی نہ تھا۔ آئسکریم کی ٹھنڈک تھی یا دونوں کے اندر کا سکون کہ سوّا نیزے کا سورج بھی انھیں تنگ نہیں کر رہاتھا۔ انھوں نے آئسکریم ختم کی اور فاتحانہ انداز سے سائیکل پر لبرٹی کا ایک اور چکر لگایا، پھر نہ جانے کس سمت چلے گئے۔ وہ دونوں بہن بھائی تھے، میاں بیوی یا عاشق معشوق کچھ معلوم نہیں لیکن اندر کے سکون نے انھیں نہ تو غربت سے متاثر ہونے دیا، نہ دھوپ کی شدت انھیں پگھلا سکی اور نہ ہی ارد گرد کے ماحول نے انھیں ڈسٹرب کیا۔ ان دونوں کے چہروں پر موجود سکون میں نے آج تک دوبارہ کہیں نہیں دیکھا۔ یہ سب باتیں ہمارے پاکستان کی ہیں۔ جس کی جوانیوں میں شائستگی تھی، محبت میں ہوس کی بجائے احترام تھا اور ایک کون آئسکریم میں کتنا سکون تھا۔ وہ پاکستان کہاں گیا؟