بھٹو‘ مجید نظامی اور نظریۂ پاکستان کی تقریب!!
پھولوں کے بکھرنے اور کھلنے کے موسم ایک دوسرے کے بعد ابھرتے اور سمیٹتے رہتے ہیں۔ 4 اپریل ایک مہکتے ہوئے گلاب شخص کو قتل گاہ میں لے جایا گیا تھا اور پھر خوشبو بکھر گئی تھی۔ یہ خوشبو ہمارے باغوں‘ باغیچوں‘ گلیوں‘ محلوں اور دلوں میں موجود ہے مگر یکجا اور یکتا مجسم ایک وجود میں جس کا نام بھٹو تھا‘ اس کی شکل میں اب مل نہیں سکتی۔ تو پھر سوچ لیں کتنا قیمتی ہوتا ہے ایسا کوئی بھی شخص جس کا نعم البدل تلاش کرنا ناممکن ہو اکرتا ہے مگر جو گلاب چہرے موجود ہیں‘ ان کی قدر کرنا چاہئے۔ ایسے میں ایک بہار موسم میں ایک اور پھول سانگلہ ہل میں مجید نظامی کی صورت میں بھی کھلا تھا جو حمید نظامی کے 23 مارچ کو شروع کئے گئے اخبار کو جو پندرہ روزہ تھا‘ اسے کامیابی کے سفر پر اوج ثریا تک لے گئے۔ مجید نظامی 3 اپریل کو پیدا ہوئے تھے۔ میرا شعر ہے کہ …؎
ترے کھلنے کے موسم میں برباد ہونا تھا
یہاں سے دور جانا تھا کہیں آباد ہونا تھا
یہ دونوں شخصیات کہیں ابدآباد ہیں۔ مجید نظامی بھٹو کے بارے میں محبت والی اور کچھ خفگی والی دونوں طرح کی رائے رکھتے تھے۔ پہلے محبت کا ذکر کریں تو وہ ملک کو آئین دینے‘ اسلامی کانفرنس کا انعقاد کروانے اور ڈاکٹر قدیر کو ''Beg, Borrow or steal'' کہہ کر پاکستان کیلئے آئٹم حاصل کرنے کے عظیم کارنامے کی وجہ سے تھی اور اتنے بڑے کارنامے سرانجام دینے والے شخص کیلئے معمولی سی خفگی اس لئے تھی کہ مجید نظامی کہتے تھے کہ پاکستان کے تمام حکمران ایسے رہن سہن اختیار نہ کریں کہ جیسے ان کی جڑیں پاکستان کے عام گھرانے سے نہیں بلکہ کسی شہنشاہ کے محل سے جا ملتی ہیں اور آجکل کے حکمران بھی اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں۔ بھٹو نے بھی اندازحکمرانی اس انداز کے اپنا لئے تھے۔ مگر قوم ان کے بڑے کارناموں کو زیادہ یاد رکھے ہوئے ہے۔
ان شخصیات کے کارنامے اور باتیں زندہ رہیں گی اور زندہ قومیں اپنے محسنوں کو خراج عقیدت پیش کیا کرتی ہیں۔ زندگی میں یہ بات نہ بھٹو کو معلوم تھی اور نہ مجید نظامی کو‘ ان دونوں شخصیات کے دکھ بھرے اور خوشی کے منانے کے لمحات وقت کی گردش میں آگے پیچھے آجائیں گے۔ بھٹو کو بھی قوم نے یاد کیا اور مجید نظامی کیلئے راولپنڈی اسلام آباد نظریۂ پاکستان فورم کے تحت ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے روح رواں شاہد رشید نے خصوصی شرکت کی۔ تقریب کی صدارت مجید نظامی کے دیرینہ دوست مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر راجہ ظفرالحق نے کی جبکہ مہمان خصوصی ایڈوائزر ٹو پرائم منسٹر عرفان صدیقی تھے۔ دیگر لوگوں میں ظفر بختاوری‘ پروفیسر نعیم قاسم‘ جاوید صدیق اور دیگر شامل تھے۔ عرفان صدیقی کو کہیں ضروری میٹنگ میں جانا تھا لہٰذا انہیں جلدہی خطاب کی دعوت دیدی گئی۔ انہوں نے مجید نظامی کی صحافتی زندگی کے اہم فیصلوں پر اوراپنی ذاتی رفاقتوں پر گفتگو کی اور نوائے وقت میں اپنی کالم نگاری کے سفر کے یادگار واقعات بتائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف ایک دن یکم اپریل کو 20 کشمیری نوجوان شہید کئے گئے۔ آج مجید نظامی ہوتے تو توانا انداز میں دشمن کو للکارتے۔ سینیٹر راجہ ظفرالحق نے بھی اپنی تقریر میں تازہ ترین واقعات میں کشمیریوں کی شہادت اور پیلٹ گن سے بینائی چھین لینے کے واقعات کی مذمت کی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو بھی اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا اور کہا کہ کشمیر اور فلسطین میں میڈیا کو آزاد رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے اور اب مذمت سے ایک قدم آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے۔ ان دو شخصیات کیلئے نوائے وقت راولپنڈی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جاوید صدیق کے خطاب کے بعد شاہد رشید نظریۂ پاکستان ٹرسٹ لاہور نے مجید نظامی سے 30 برس سے زائد کے تعلق پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مجید نظامی کو ان کی سالگرہ کیلئے بڑی مشکل سے راضی کیا جاتا تھا۔
یہ تقریب مقتدرہ مں منعقد ہوئی تھی۔ لہٰذا مقتدرہ کے چیئرمین افتخار عارف کو جب دعوت خطاب دی گئی تو انہوں نے مجید نظامی کے دوست نسیم انور بیگ کے گھر کی محفلوں کا ذکر کیا۔ تقریب کی نظامت کا اعزاز مجھے حاصل تھا اور میرے لئے مجید نظامی کے یوم ولادت کی نظامت اس لئے دشوار نہیں تھی کہ مجھے ان کی بائیوگرافی ’’جب تک میں زندہ ہوں‘‘ لکھنے کا اعزاز حاصل ہے اور یہ کتاب لکھنے کے دوران مجھے مسلسل ان کی رفاقلتوں کی خوشبو میں رہنے کا وقت بھی مل جایا کرتا تھا۔ مجید نظامی چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی دلچسپ اور اہم باتیں کیاکرتے تھے۔ میں اسلام آباد سے لاہور ہفتہ وار میٹنگ کیلئے جایا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ میں نے پوچھا کہ مناسب وقت کون سا ہوا کرے گا کہ جب آپ سے ملاقات ہو سکے گی تو انہوں نے کہا بارہ بجے اور اگلے ہفتے جب میں لاہور پہنچی تو نظامی صاحب کو چٹ لکھ کر بھیجی جس پر لکھا تھا ’’نظامی صاحب‘ بارہ بج گئے ہیں۔‘‘ اور جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ کتاب میں بھی جابجا اہم واقعات کے دوران نظامی صاحب کے تلخ و شیریں جملوں کا مزا لیا جا سکتا ہے۔
نظریۂ پاکستان فورم راولپنڈی اسلام آباد کی تقریب کیک کاٹنے کی رسم کے بعد اختتام کو پہنچی تھی مگر ملک کی ان عظیم شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ کبھی اختتام کو نہیں پہنچ سکتا۔ نظریۂ پاکستان فورم نے مجید نظامی کی برسی کی آنے والی تقریبات کو نمایاں انداز میں منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دراصل اس انداز میں ان کے پیغام کی روشنی کو بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ نوجوان نسل کو بہتر انداز میں ان سے متعارف کروایا جا سکتا ہے اور پھر ’’تجدید وفا‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اُمید ہے کہ آنے والے پروگرام آپس کی مشاورت کے بعد معاملات طے کئے جائیں گے‘ لیکن آج مجید نظامی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ذرا ان کی کہی ہوئی اس بات پر غور کرنا ضروری ہے۔ مجید نظامی کہتے تھے کہ ’’جب تک جاگیرداری نظام کا خاتمہ نہیں ہو جاتا‘ اس وقت تک ملک سے ’’ڈکٹیٹر شپ‘‘ نہیںجا سکتی۔‘‘ اس کے آگے انہوں نے لکھوایا تھا کہ ’’22 خاندان بنے تھے اب شاید 22 ہزار خاندان بن چکے ہیں۔ لہٰذا ’’صنعتی خانوادے اور زراعتی خانوادے ختم کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر عوامی حکومت نہیں آسکتی۔ اور اب ملک میں ڈکٹیٹر شپ کا ذکر محض ’’فوج‘‘ کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے مجھے کہنا ہے کہ ’’مجیدنظامی صاحب! اب 22 خاندان 22 ہزار خاندان سے 22 لاکھ بنتے جا رہے ہیں تو پھر ایسے میں عوامی حکومت کا خواب کیسے دیکھا جائے؟ اور پھر یہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔