ایک معتدل رہنما کی ضرورت
پاکستان اس وقت عجیب و غریب خبروں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ہر روز کئی افواہیں سننے کو ملتی ہیں۔ کبھی یہ ہو گیا کبھی وہ ہو گیا، کبھی یہ ہونے جا رہا ہے۔ پہلے یہ افواہ تھی کہ سینٹ الیکشن نہیں ہوں گے پھر انتخابات کے بارے میں بحث شروع ہو گئی لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے اور جمہوریت کا تسلسل قائم رہے گا۔ اگر جمہوریت کے راستے میں کوئی رکاوٹ آئی تو اس کی ذمہ داری کچھ سیاست دانوں پر عائد ہو گی جو اداروں کے ساتھ تصادم کے رستے پر چل کر خود کو بہادری کے تمغے دے رہے ہیں۔ بھئی یہ ہمارا اپنا ملک ہے، ہم سب ایک خاندان کی طرح ہیں، اپنے اداروں کو بدنام کر کے پوری دنیا میں ملکی وقار کو مجروح کیوں کر رہے ہیں؟ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے آپ دنیا کی بڑی بڑی جمہوریتوں کو دیکھ لیں وہاں سکیورٹی اداروں اور حکومت کے درمیان گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور ان کے تمام فیصلے مل کر کئے جاتے ہیں۔ امریکہ جو کہ دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے علاوہ سپر پاور بھی ہے وہاں بھی صدر کا کوئی فیصلہ پینٹا گون کی مشاورت کے بغیر طے نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ دنیا میں ایک طاقت بن کر ابھرا ہے۔ اگر وہاں بھی فوج اور سیاسی حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سرگرمِ عمل ہوں تو وہ دنیا پر کیسے حکومت کر سکتے ہیں؟ پچھلے کئی مہینوں سے اداروں کے درمیان چپقلش کی وجہ سے ملکی وقار کو شدید ٹھیس پہنچائی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے اداروں میں بھی کچھ شخصیات ایسی ہوں جو سیاسی حکومت کو پسند نہ ہوں یا ان کے ساتھ ان کا تعاون نہ رہا ہو مگر اس بات میں دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان کی فوج ملک کو یکجا رکھنے میں اہم کردار نبھاتی چلی آ رہی ہے۔ فوج کو عالمی سطح پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف بھارت ہے جو صرف اپنی سرحدوں پر ہی پاکستان کے لئے خطرہ نہیں بلکہ افغانستان میں بھی اس کی حکمتِ عملی چلتی ہے اور وہ کئی اطراف سے ہمارے ملک پر وار کئے جا رہا ہے۔
اسرائیل سے بھی اس کی دوستی ہے۔ یوں پاکستان کو چاروں طرف سے ایک عجیب تنائو کی صورت حال کا سامنا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں ایک قوم بن کر سوچنا چاہئے، ایک فرد بن کر نہیں۔ جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے، کسی ایک فرد کی حکومت سے مراد جمہوریت کی مضبوطی نہیں ہونا چاہئے۔ ماضی قریب میں ہم نے دیکھا ہے کہ جاپان میں چھ چھ مہینے بعد وزرائے اعظم تبدیل ہو جاتے تھے۔ ایک ذرا سی بات ہوئی، چھوٹا سا الزام لگا اور وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا۔ جس پارلیمانی نظام پر ہم عمل پیرا ہیں، برطانوی پارلیمانی نظام، وہاں بھی کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم نے بڑے آرام سے استعفیٰ دیا اور گھر چلے گئے۔ جمہوریت تو وہاں بھی چل رہی ہے۔ کسی نے وزیر اعظم کے حق میں جلوس نکالا نہ وزیر اعظم نے اپنے غصے کا برملا اظہار کیا بلکہ ملک کی بہتری کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا۔ ہمارے ہاں جمہوریت کو نقصان مارشل لائوں کی بجائے سیاست دانوں نے زیادہ پہنچایا ہے اس لئے کہ کئی سیاست دان وزیر اعظم بنتے ہی آمریت کی طرف چل پڑتے ہیں اور انہیں احساس ہونے لگتا ہے کہ حکومت کرنا صرف ان کا حق ہے اور ان کے علاوہ کوئی اس عہدے کے لائق نہیں۔ موجودہ صورت حال میں بھی میاں نواز شریف کے جانے کے بعد جمہوریت پوری روانی سے آگے بڑھ رہی ہے، انہی کا تجویز کردہ وزیر اعظم اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے تو پھر شکوہ کس بات کا ہے؟ آخر ہم اپنے وقت کو مثبت سرگرمیوں پر کیوں صرف نہیں کر سکتے؟ جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمیں معاشی، سیاسی اور عالمی حوالے سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے تو ہم مل کر کیوں نہیں بیٹھتے؟ وہ گِلے شکوے جو سڑکوں پر کئے جا رہے ہیں وہ میز پر بیٹھ کر بھی کئے جا سکتے ہیں۔
موجودہ صورت حال میں ایک معتدل رہنما کی اشد ضرورت ہے جو معاملات کا باریک بینی سے تجزیہ کرے اور اپنے فیصلوں سے قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب ہو۔ اس تناظر میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف پہلے نمبر پر کھڑے نظر آتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ تعاون کو اہمیت دی اور اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو معتبر جانا۔
گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بعد ان کا جو بیان سامنے آیا ہے اس سے بھی ان کا نقطۂ نظر واضح ہوتا ہے۔ انہوں نے آرمی چیف کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیشہ ور سپہ سالار ہیں جو سیدھی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے لئے خدمات سرانجام دینے والوں کی تعظیم ہونی چاہئے اور افواجِ پاکستان نے ملکی سلامتی کے لئے جو لازوال قربانیاں دی ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر انتہا پسندی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس پر انہیں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ اگر ہم اخلاقی طور پر اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو ان کے حوصلے بلند ہوں گے۔ کوئی بھی فوج اسی وقت بہادری سے لڑتی ہے جب اسے احساس ہو کہ جن کے تحفظ کے لئے وہ دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہے وہ قوم ان کے لئے دعاگو ہے اور ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ خدا کرے ہمیں جلد ہی اس تنائو کی کیفیت سے نجات ملے۔ مارشل لاء کسی طور ملک کے مفاد میں نہیں مگر جمہوری آمریت بھی کسی بیماری کا حل نہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے کہ وہ اپنی کاوشوں سے ملک میں ہم آہنگی کی فضا کو فروغ دینے کی سعی کرتے رہیں۔ قوم ان کے اس کارِ خیر کو دل سے سراہتی ہے۔