• news
  • image

ہر ٹیکس دہندہ دیانتداری سے ٹیکس ادا کرے تو ہمیں بیرونی قرضوں کیلئے کشکول اٹھانے کی ضرورت نہ رہے

کالا دھن اور اثاثے قانون کے دائرے میں لانے کی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی نئی ایمنسٹی سکیم اور اپوزیشن کی بے جا تنقید


وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ملکی و غیر ملکی کالا دھن اور اثاثے قانونی بنانے کیلئے نئی ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر دیا ہے جو آر ڈی ننس کے اجراء کے ساتھ ہی نافذ العمل ہو جائے گی اور اس سال 30جون تک جاری رہے گی، وزیراعظم نے اس کے ساتھ ساتھ یکم جولائی2018ء سے انکم ٹیکس کی مختلف شرحوں میں غیر معمولی کمی کا بھی اعلان کیا، گزشتہ روز وزیراعظم ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے اعلان کیا کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ہی ٹیکس دہندہ کا نیشنل ٹیکس نمبر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر موجود اثاثے پانچ فیصد جرمانہ ادا کرکے قانونی بنائے جا سکیں گے جبکہ بیرون ملک دھن کو دو فیصد جرمانہ ادا کرکے سفید کیا جا سکے گا، اسی طرح ملک کے اندر جو اثاثے ظاہر نہیں کئے گئے جن میں سونا، پرائز بانڈز اور پراپرٹی شامل ہے۔ ان پر30جون 2017ء تک جو آمدنی ہوئی ہے اسے پانچ فیصد جرمانہ ادا کرکے باقاعدہ بنایا جا سکتا ہے۔ یکم جولائی سے ایف بی آر کے پراپرٹی ریٹس ختم ہو جائیں گے۔ ان کے اعلان کے مطابق نان فائلرز یکم جولائی سے40لاکھ روپے سے زائد مالیت کی پراپرٹی نہیں خرید سکیں گے اور صوبوں سے کہا جائے گا کہ وہ پراپرٹی کی رجسٹریشن کیلئے صوبائی یا مقامی نوعیت کے ٹیکسوں کا حجم محض ایک فیصد رکھیں۔ وفاقی حکومت کو آئندہ مالی سال سے پاکستان میں رجسٹرڈ کرائی جانے والی پراپرٹی خریدنے کا اختیار حاصل ہوگا جس کے لئے تین درجات رکھے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ سیاستدان اور ان کے زیر کفالت افراد اور سرکاری ملازمین ایمنسٹی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ ان کے بقول غیر ملکی اثاثوں کے اعلان اور انہیں وطن واپس لانے کی ایمنسٹی سکیم کے تحت غیر ظاہر شدہ غیر ملکی زر مبادلہ کو وطن واپس لانے پر دو فیصد جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ ایمنسٹی سکیم کو نیب، انکم ٹیکس اور دیگر قوانین کے اطلاق سے تحفظ دیا جائے گا۔
وزیراعظم نے وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب اور مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس امر سے بھی آگاہ کیا کہ ملک کی 20کروڑ 70لاکھ آبادی میں سے صرف 12لاکھ شہری انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں اور ان میں بھی پانچ لاکھ افراد کی زیرو ریٹرن ہوتی ہے اس طرح صرف سات لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں جن میں اکثریت تنخواہ دار طبقے کی ہے اس لئے ہم ٹیکسوں میں انقلابی اصلاحات کا اعلان کر رہے ہیں۔ ان کے بقول شہری ٹیکس ادا کریں گے تو ملک چلے گا جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ٹیکس ادائیگی کا کلچر نہ ہونے کے باعث سارا بوجھ عام طبقے کو اٹھانا پڑتا ہے جس میں ٹیکس کی ادائیگی کی سکت بھی نہیں ہوتی۔ ان پر بالواسطہ ٹیکسوں کا نفاذ غیر منصفانہ ہے۔ وزیراعظم کے بقول 12لاکھ روپے تک سالانہ آمدنی کو ٹیکس سے مستثنٰی قرار دیا جا رہا ہے جبکہ 12سے 24لاکھ تک سالانہ آمدنی پر پانچ فیصد ٹیکس ہوگا۔ اسی طرح48لاکھ روپے تک آمدنی پر دس فیصد اور اس سے زائد آمدنی پر 15فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔ ان کے اعلان مطابق آف شور کمپنیاں اثاثوں میں شمار ہوں گی جبکہ دنیا میں آف شور کمپنی رکھنا جرم نہیں ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ اگر کسی نے آف شور کمپنی میں اثاثے رکھے ہیں تو انہیں ڈکلیئر کرنے کا یہی موقع ہے۔
وزیراعظم کی اعلان کردہ نئی ایمنسٹی سکیم کو اگرچہ اپوزیشن کی جانب سے اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ حکمران جماعت اس سے آنے والے انتخابات میں فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ عمران خاں اسے عدلیہ میں چیلنج کا عندیہ دے رہے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے بھی اس سکیم پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، اس کے باوجود قومی معیشت پر اس سکیم کے ممکنہ طور پر مرتب ہونے والے مثبت اثرات کو نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ اس ایمنسٹی سکیم کے اعلان کے ساتھ ہی سٹاک مارکیٹ میں جس طرح مندی کے رجحان کو بریک لگی اور مختلف حصص پر منافع کی شرح تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی نظر آئی اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جب ملک کے شہری اپنا غیر ظاہر کردہ سرمایہ ملک واپس لائیں گے تو اس سے قومی معیشت کو کتنا استحکام حاصل ہوگا۔ جبکہ اس سے زر مبادلہ کے ذخائر بھی بڑھیں گے اور اس سرمائے سے ملک کے اندر سرمایہ کاری ہو گی جس کے لئے سی پیک نے پہلے ہی دروازے کھول کر سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کر دیئے ہیں تو اس سے ملکی صنعت و تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ اس تناظر میں اپوزیشن کی تنقید کے باوصف نئی ایمنسٹی سکیم کا اجرا ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا ایک درست اور بروقت اقدام ہے۔ اگرچہ ماضی میں جاری ہونے والی ایسی سکیموں کا ملک کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ کالا دھن سفید کرانے کی ترغیبات کے باوجود لوگ ٹیکسوں سے بچنے کیلئے بیرون ملک موجود اپنی رقوم ملک واپس لانے سے گریز کرتے رہے ہیں۔تاہم نئی ایمنسٹی سکیم کے تحت ٹیکسوں میں بھی غیر معمولی چھوٹ دی جا رہی ہے جس سے کالا دھن واپس لانے کیلئے کسی جانچ پڑتال سے قانونی تحفظ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں کی ادائیگی میں بھی رعایت مل رہی ہے تو ممکنہ طور پر اس سکیم سے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
یہ ایک طرح سے ملک کے شہریوں کی حب الوطنی کی بھی آزمائش ہے کہ جو سرمایہ وہ ملک کے اندر ہی مختلف ذرائع سے حاصل کرکے ملک سے باہر لے گئے ہیں اور وہاں انہوں نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے یا دوسرے ذرائع سے سرمایہ کاری کر رکھی ہے، وہ جائز طور پر اسی سرمایہ کو ملک کے اندر سرمایہ کاری کیلئے بروئے کار لا کر قومی برآمدات کو فروغ دینے میں ممدو معاون ہو سکتے ہیں اور ملک میں غربت کے خاتمہ کیلئے بھی اپنا ممکنہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گزشتہ ماہ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کا جو نقشہ پیش کیا تھا اور پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر صرف 12ارب ڈالر تک رہ جانے کے باعث ملکی معیشت کو جو جھٹکا لگتا ہوا دکھایا تھا اس کے تناظر میں ملک کے ذمہ دار اور محب وطن کاروباری طبقات کو ملک کے بہترین مفادکو پیش نظر رکھ کر وزیراعظم کی اعلان کردہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے بھرپور فائدہ اٹھانا اور اندرون یا بیرون ملک اپنا غیر ظاہر کردہ سارا سرمایہ ضابطۂ کار میں لا کر اسے قومی معیشت کی ترقی کیلئے معاون بنانا چاہئے ۔اسی طرح بیرون ملک سے پاکستانیوں کا سرمایہ ملک میں منتقل ہونے کی صورت میں ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر پر چھائی غیر یقینی کی صورتحال بھی چھٹ جائے گی۔
اس سکیم کے مثبت نتائج حاصل ہونے کی صورت میں بے شک آئندہ انتخابات میں حکمران مسلم لیگ کو پوائنٹ سکورنگ کا موقع ملے گا تاہم اس سے زیادہ فائدہ قومی معیشت کے استحکام کی صورت میں ملک کو حاصل ہوگا۔ اس لئے اس سکیم کو محض تنقید برائے تنقید کے پیمانے سے نہیں پرکھنا چاہئے بلکہ اپوزیشن کی صفوں میں موجود سرمایہ داروں اور ٹیکس نیٹ پر لائے جانے کے متقاضی دوسرے افراد کو خود بھی اس سکیم سے فائدہ اٹھا کر ملکی اور قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ اس سے قومی معیشت مستحکم ہو گی تو انتخابی نتائج کی بنیاد پر جس بھی پارٹی کو اقتدار کا مینڈیٹ حاصل ہو گا اس کیلئے حکومتی گورننس بہتر بنانا اور ملکی نظم و نسق چلانا آسان ہو جائے گا چاہئے وہ موجودہ اپوزیشن میںسے ہی کوئی جماعت کیوں نہ ہو۔ ہمیں سیاست بازی میں ملکی اور قومی مفاد کو ذاتی مفادات پر بہرصورت ترجیح دینا چاہئے اور اگر حکومت کے کسی اقدام سے قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں تو انہیں وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مثبت ہی قرار دینا چاہئے۔ وزیراعظم کے اس اعلان سے کہ سیاستدان اور ان کے زیر کفالت لوگ اس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ پاناما کیس کے شکنجے میں آئے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کے ارکان کو بھی اس سکیم کے تحت کسی قسم کا فائدہ پہنچانے کی گنجائش ویسے ہی ختم ہو گئی ہے، اس لئے اپوزیشن کو محض تنقید برائے تنقید والی سیاست باہر نکل کر ملکی اور قومی تعمیر و ترقی کا سوچنا چاہے کیونکہ یہ ملک سب کا ہے۔
وزیراعظم کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں صرف سات لاکھ افراد ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور ان میں بھی اکثریت تنخواہ دار طبقہ کی ہے تو کیا ہمارے مراعات یافتہ طبقات بشمول سیاستدانوں، جاگیرداروں اور معاشرے کے متمول طبقات کیلئے شرم کا مقام نہیں کہ وہ ملکی اور قومی وسائل میں سے جھولیاں بھر بھر کراپنا حصہ بقدر جثّہ وصول کرتے ہیں مگر اس کے بدلے میں قومی خزانے میں ایک دھیلہ بھی جمع کرانے کے روادار نہیں ہوتے۔ اس تناظر میں تنخواہ دار طبقہ سے زیادہ مظلوم اور کوئی طبقہ نہیں کہ انہیں واجب الادا براہ راست ٹیکس بھی ہر صورت اپنی تنخواہوں میں سے کٹوانا ہوتا ہے جبکہ روز مرہ استعمال کی مختلف اشیاء اور بجلی، تیل، گیس پر لگنے والے سیلز ٹیکس کو بھی بالواسطہ ٹیکس کی صورت میں بہرحال ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بدلے انہیں قومی وسائل میں سے جو حصہ ملتا ہے وہ ان کی محنت کا عشر عشیر صلہ بھی نہیں ہوتا۔ اگر اس طبقے کی وجہ سے قومی معیشت اور ملک کا نظم و نسق چل رہا ہے تو اس طبقے کی حوصلہ افزائی کیلئے بھی حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ اس تناظر میں وزیراعظم کی اعلان کردہ نئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم خوش آئند ہے کہ اس سے ماہانہ ایک لاکھ روپے تک کی آمدن والے بالخصوص تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس سے چھوٹ مل جائے گی۔ اس کے بعد جو طبقات ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں وہ اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس دیانتداری سے ادا کرتے رہیں تو ہمیں اپنی معیشت کو سہارا دینے کیلئے کشکول اٹھا کر آئی ایم ایف اور دوسرے بیرونی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہ رہے۔ اس تناظر میں ملک کے ہر شہری کو اپنے گریبان میں جھانک کر یہ جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ وہ اپنی ارض وطن سے حاصل ہونے والی انواع و اقسام کی نعمتوں اور سہولتوں کے بدلے اس ملک کو کیا دے رہا ہے۔ ہمیں ٹیکس چوری کے کلچر کی بہر صورت حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن