کسی طالع آزمائی کی صورت میں قوم کو چیف جسٹس سے ڈٹ جانے کی توقع
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ایک تقریب سے خطاب کہا ہے کہ ملک میں کوئی مارشل لاء لگا تو آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں‘ اگر اسے روک نہ سکا تو بوریا بستر اُٹھا کر گھر چلا جاؤں گا۔ الیکشن آئین کے مطابق مقررہ وقت پر ہوں گے۔ پاکستان میں جمہوریت، جمہوریت اور جمہوریت ہو گی اور صرف آئین کی پاسداری ہو گی۔
کچھ لوگ پاک فوج اور عدلیہ کے خودساختہ ترجمان بن کر اپنی خواہشات کو ہی ملمع سازی کرکے خبر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایسی کارستانیوں کے باعث اگلے انتخابات کے انعقاد پر شکوک شبہات کا غبار نظر آرہا ہے۔ کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت کی بات کرتا ہے‘ کوئی نگران حکومت کی مدت دو اڑھائی سال پر محیط کرنے کی تجویز دے رہا ہے۔ شیخ رشید نے تو جوڈیشل مارشل لاء کو دعوت دیدی جس کے بعد چور دروازے سے وزارتیں پانے کی خواہش رکھنے والوں کی باچھیں کھل گئیں مگر آئین میں حکومت کی آئینی مدت کے خاتمے پر 60 دن میں انتخابات کا انعقاد ضروری ہے جس کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ حلقہ بندیوں کا عمل جاری ہے۔ الیکشن کمشن اپنے فرائض سرانجام دینے میں سرگرم ہے۔ ایسے موقع پر چیف جسٹس کی طرف سے الیکشن کے بروقت انعقاد کی یقین دہانی، اور کسی بھی غیرآئینی اقدام کی حمایت سے انکار وقت کی اہم ضرورت تھی جس سے غیرآئینی اقدام کے آرزومندوں کو مایوسی اور جمہوریت کو پھیلا پھلتا دیکھنے کی خواہش رکھنے والوںکو اطمینان حاصل ہوا ہے اور یہی جمہوریت کے بہترین مفاد میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں کوئی مارشل لاء لگا اوروہ اسے روک نہ سکے تو گھر چلے جائیں گے۔ قوم ان سے توقع رکھتی ہے کہ خدانخواستہ ایسی مہم جوئی ہوئی تو وہ خاموشی سے گھر نہیں جائیں گے۔ ایسے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف ڈٹ جائیں گے۔ الیکشن کے التواء کے خلاف چیف جسٹس کے عزم کی سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی ستائش کی ہے۔