ریلوے :60 ارب روپے خسارہ‘ سعد رفیق اور افسر سپریم کورٹ طلب.... سیاسی آقاﺅں کو بتائیں عوام کیلئے کچھ کریں : چیف جسٹس :
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب حکومت کیلئے تعریفی کلمات کہنے سے صاف انکار کر دیا۔ ہسپتالوں کی حالت زار سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 14 آنے کا کام نہیں کیا اور تعریفی کلمات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عدالت نے عدالتی کمشن کی جانب سے ہسپتالوں میں بہتری کے لیے پیش کی جانے والی تجاویز کو محکمہ صحت کی ویب سائٹ پر ڈالنے کا حکم دے دیا۔ این این آئی/ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے حکومت کی صحت کے معاملے میں کارکردگی ناقص ہے، خواجہ صاحب! آپ محکمہ صحت کو سنبھال نہیں سکتے تو چھوڑ دیں۔ دس دس لاکھ پر لوگ رکھ لیے ہیں، سفارش پر لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے، کیا کام کر رہے ہیں، کس کھاتے میں ایسے لوگوں کو لاکھوں روپے تنخواہ پر رکھا ہوا ہے۔ خواجہ سلمان رفیق صاحب آپ وزیراعلیٰ سے بات کریں گے یا ہم بلا لیں۔ ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے علاوہ آپکو کوئی کام نہیں۔ وزیر آباد کا ہسپتال اس لیے بند رہا وہ پرویز الٰہی کا پراجیکٹ تھا، وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بلا لیتا ہوں اور پھر انکی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک وزیر کے پرسنل سیکرٹری کو بھی 3 لاکھ میں لگا دیا۔ ملک میں بادشاہت نہیں ہے، ہم پنجاب سمیت ملک بھر میں یہ برداشت نہیں کریں گے اور کسی کو کروڑوں کی بندر بانٹ نہیں کرنے دیں گے۔ وقائع نگار خصوصی کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ہسپتالوں کی حالت زار سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی دوران سماعت سیکرٹری ہیلتھ کی جانب سے ہسپتالوں کی حالت زار اور سہولیات کی بہتری سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دئیے کہ آپ کی رپورٹ میں ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی سے متعلق تمام منصوبے مستقل کے ہیں ہمیں یہ بتائیں کہ اس وقت صحت کی سہولیات سے متعلق حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے عدالتی حکم پر وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے وزیر اعلی پنجاب کی زیر سایہ محکمہ صحت میں بہت ترقیاتی کام کیے ہیں جس پر عدالت نے خواجہ سلمان رفیق کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ہمیں مت گنوائیں کہ آپ نے کیا کیا۔ جو پوچھا ہے صرف اسی کا جواب دیں جس پر خواجہ سلمان رفیق نے عدالت کو بتایا کہ آپ کے ہسپتالوں میں دورے سے انہیں حوصلہ افزائی اور اصلاح کا موقع ملتا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے دورے کرنے سے آپ ہی کے لوگ ہمارے دوروں پراعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عدالتوں کو اپنا کام کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپنا کام بھی کرتا ہوں اورحکومت پر بھی نظر رکھتا ہوں جس پر خواجہ سلمان رفیق نے جواب دیا کہ انہیں چیف جسٹس کے دوروں سے کوئی اعتراض نہیں بس وہ چاہتے ہیں کہ عدالت جہاں وہ غلط ہیں نشاندہی ضرور کرے مگر جہاں کام ہوا وہاں تعریف بھی کی جائے جس پر چیف جسٹس خواجہ سلمان رفیق کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ وہ حکومت پنجاب کے لیے تعریفی کلمات اس وقت تک نہیں کہیں گے جب تک آگے کام نہیں ہو گا جائیں جا کر وزیر اعلی پنجاب کو لے آئیں انہیں بتائیں کہ کیا کچھ ہو رہا ہے، 14 آنے کا کام نہیں کرتے اور تعریفی کلمات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سیکرٹری صحت سے استفسار کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں آپ کی کارکردگی انتہائی گھٹیا ہے جس پر چیف سیکرٹری پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ میرا تقرر قائداعظم سولر کمپنی سے محکمہ صحت میں کیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ تو خسارے میں جا رہا ہے وہاں کتنا نقصان کیا ہے سیکرٹری صحت نے جواب دیا کہ قائداعظم سولر منصوبہ فائدے میں جا رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں پتہ ہے کتنا فائدے اور کتنا نقصان میں جارہا ہے آپ بالکل خالص بیوروکریٹ والی بات کر رہے ہیں کیا آپ کا کام صرف ٹرانسفر پوسٹنگ رہ گیا لوگوں کی صحت کے ساتھ کھیلتے ہیں بتائیں وزیرآباد اور عارف والا کے منصوبے شروع ہوئے جس پر سیکرٹری صحت نے بتایا کہ وہاں منصوبے شروع کردئیے گئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وزیرآباد منصوبے میں تاخیر اسی وجہ سے ہوئی نا کہ وہ منصوبہ پرویز الہی کا تھا۔ بتائیں کینسر کے مریضوں کے لیے کتنے ہسپتال بنائے، باہر سے ڈاکٹروں کو بلا کر نوازا جارہا ہے اربوں روپے کا کڈنی ٹرانسپلانٹ منصوبہ لگا دیا وہی رقم میو اور سروسز ہسپتال کو بہتر کرنے میں لگاتے ہسپتالوں کی حالت زار اور سہولیات میں بہتری کے لیے تجاویزات پیش کیں جس پر عدالت نے تمام تجاویز کو محکمہ صحت کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ تمام شہری کمیٹی کی تجاویزات پر اعتراضات اور اپنی تجاویز محکمہ صحت کو 15 روز میں جمع کرائیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ ہم نے ہسپتالوں کا نظام اور مریضوں کے لیے سہولیات بہتر بنانی ہیں عدالت نے چیف سیکرٹری صحت کی جانب سے معاملے پر عدالتی کمشن تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر دی اور ریمارکس دئیے کہ کمشن تو ایک دو افراد پر مشتمل ہوگا ہم نے تمام سٹیک ہولڈرز کی رائے لے کر نظام کو بہتر کرنا ہے آپ پہلے تجاویز پر اعتراضات اور عوامی تجاویز آنے دیں پھر کمشن کا فیصلہ کریں گے دوران سماعت خاتون نے ملتان کارڈیالوجی میں خاتون اور اس کے والد سے ہسپتال انتظامیہ کے غیرمناسب رویے کا چیف جسٹس سے شکوہ کیا اور بتایا کہ ملتان کارڈیالوجی میں ایمرجنسی سپریم کورٹ کے واش روم جتنا رقبہ رکھتی ہے جہاں ڈاکٹرز اور نرسیں فون پر مصروف رہتے ہیں۔ خاتون نے الزام لگایا کہ ہسپتال کے ایم ایس کو شکایت کرنے پر انتظامیہ نے ناروا سلوک کیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے حکومت کے خلاف بات کرنا ایسا ہے جیسے اپنے گلے میں پھندا ڈالنا جس پر خواجہ سلمان رفیق نے جواب دیا کہ خاتون کے مقاصد کچھ اور ہیں ایسی کوئی بات نہیں جس پر عدالت نے خواجہ سلمان رفیق سے معاملے کے انکوائری رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ہسپتالوںکے ویسٹ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔عدالت نے عدالتی معاون عائشہ حامد اور ڈاکٹر سمعیہ الطاف پر مشتمل ٹیم تشکیل دیتے ہوئے ہدایت کی کہ عدالت کو ہسپتالوں کی ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کے لئے حل بتایا جائے۔ چیف جسٹس نے ہسپتالوں میں ویسٹ کے ناقص انتظامات پر خواجہ سلمان رفیق پر اظہار برہمی کیا۔ چیف جسٹس پاکستان خواجہ سلمان رفیق سے استفسار کیا محکمہ صحت میں کیا کیا چیزیں سامنے آ رہی ہیں، جس پر صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ ہم بہت بہتر انتظامات کر رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو آپ روز جلسوں میں بتاتے ہیں، ہمیں ہمارے سوال کا جواب دیں، ویسٹ ٹھکانے لگانے والی مشینوں کی ناقص صورتحال کے بارے میں بتائیں، چیف جسٹس نے خواجہ سلمان رفیق سے استفسار کیا کہ آپ دس سال سے ایڈوائزر ہیں، کیا کام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ میں پتہ چلا ہے کہ تین لاکھ کلو گرام ویسٹ ہسپتالوں سے اٹھایا جا رہا ہے اور ادائیگی چار لاکھ کلو گرام ویسٹ کی کی جا رہی ہے، چیف جسٹس نے خواجہ سلمان رفیق سے کہا کہ ٹھیکیدار کو ٹھیکہ کیسے دیا گیا اور ادائیگی کیسے کی جا رہی ہے، آپ اگر محکمہ صحت کو سنبھال نہیں سکتے تھے تو چھوڑ دیتے، سفارش پر لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے، خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ ہم میرٹ پر کام کر رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کیا کام کر رہے ہیں، کس کھاتے میں ایسے لوگوں کو لاکھوں روپے تنخواہ پر رکھا ہوا ہے۔فاضل عدالت نے معاملے پر رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سمبڑیال میں روز نامہ نوائے وقت کے نمائندہ کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے چار دن کی مہلت دیدی جبکہ جڑانوالہ میں 7 سالہ بچی مبشرہ کے قتل کیس میں قبر کشائی اور دوبارہ پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔عدالت نے مبڑیال میں صحافی کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چار دن میں ملزمان گرفتار کرنے کا حکم دیا جبکہ عدالت نے آئی جی پنجاب عارف نواز کی ملزمان کی گرفتاری کے لئے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا مستردکردی۔ دوران سماعت عدالت نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ ملزمان ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے؟ کیا انہیں آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی. چیف جسٹس نے آئی جی سے پوچھا کہ بتائیں کہ ملزمان کا تعلق کس پارٹی ہے۔ملزمان کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے۔ آئی جی نے عدالت کو بتایا ملزمان کا تعلق مسلم لیگ( ن) سے ہے چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ ملزمان کو کس کی سپورٹ حاصل ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا ہے ملزمان کو کسی کی بھی سپورٹ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملزمان کا تعلق مسلم لیگ ن حکمران جماعت سے ہے کیا یہ کم ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے گئے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا اگلے ہفتے کراچی بیٹھنا تھا لیکن اس کیس کے لیے لاہور رجسٹری بیٹھوں گا جبکہ فیصل آباد میں کمسن طالبہ زیادتی قتل ازخود کیس میں عدالت نے ایم ایس الائیڈ ہسپتال فیصل آباد کو بچی کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے آئندہ سماعت پر فرانزک رپورٹ بھی طلب کرلی۔ عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل کو بھی آئندہ سماعت پر تفتیش کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا.چیف جسٹس نے کیس میں پیش رفت نہ ہونے پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔ دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا تمام زاویوں سے تفتیش کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا اطمینان عدالت اور ریاست کا ہونا چاہئے، درخواستگزار کا نہیں عدالت نے کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ریلوے میں ساٹھ ارب روپے کی کرپشن پر ازخود نوٹس میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، سیکرٹری ریلوے، ریلوے بورڈ کے ممبران کو آڈٹ رپورٹس سمیت طلب کر لیا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پاکستان ریلوے میں ساٹھ ارب روپے کی کرپشن کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے قرار دیا کیوں نہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو طلب کیا جائے۔ بھارت کا وزیر ریلوے لالو پرشاد ان پڑھ آدمی تھا، لیکن ادارے کو منافع بخش بنایا، آج لالو پرشاد کی تھیوری کو ہاورڈ یونیورسٹی میں پڑھایا جا رہا ہے، ہمارے ہاں صرف جلسوں میں ریلوے کے منافع بخش ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن ریلوے کی اصل صورتحال مختلف ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ بادشاہت تھوڑی ہے جس کا جو جی چاہے کرتا پھرے، عدالت نے حکم دیا ساٹھ ارب روپے کی کرپشن سے متعلق پاکستان ریلوے کے وفاقی وزیر اور ذمہ دار افسران آئندہ سماعت پر پیش ہو کر نقصان کی وجوہات سے عدالت کو آگاہ کریں۔ چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب کی 56کمپنیز کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر چیف سیکرٹری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ نیب نہیں جہاں آپ ریکارڈ پیش نہ کریں یہ سپریم کورٹ ہے۔ ہر صورت ریکارڈ عدالت میں لایا جائے۔ آگے الیکشن آرہا ہے ۔ اگر آپکی حکومت چلی گئی تو اربوں روپے کا حساب کون دے گا۔ عدالت نے چیف سیکرٹری کو 14اپریل تک مکمل ریکارڈ جمع کرانے کاحکم دیدیا۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پنجاب حکومت کی 56کمپنیوں میں مبینہ کرپشن سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی گئی۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے رپورٹ پیش نہ کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب پر اظہار برہمی کیا اور ریمارکس دیے ان کمپنیوں سے متعلق نیب کو ریکارڈ نہیں دیا جا رہا لیکن یہ سپریم کورٹ ہے پنجاب کی 56کمپنیز میں کیا کچھ ہوا عوام کو پتہ چلنا چاہئے یہاں آپکو ریکارڈ ہر صورت پیش کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کتنے افسران کو کتنی تنخواہیں اور مراعات مل رہی ہیں ان کی بھرتیاں کیسے ہوئیں۔ یہ سب ریکارڈ پیش کریں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کرپشن کیسز سے عوامی مفاد متاثر ہوتا ہے۔ان کرپشن کیسز پر سپریم کورٹ کارروائی کرے گی،عدالت نے چیف سیکرٹری کو کمپنیوں کی کرپشن سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت 14 اپریل تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ایڈن ہاﺅسنگ سکیم میں پلاٹوں کی خورد برد کا نوٹس لے لیا۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے باہر ایڈن ہاﺅسنگ سکیم میں پلاٹوں کی خورد برد کے خلاف متاثرین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین میں خواتین، مرد اور بچے شامل تھے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں مظاہرین کاکہنا تھا پلاٹوں کی پوری قیمت ادا کرنے کے باوجود پلاٹ یا رقم واپس نہیں کی جا رہی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے متاثرین کو چیمبر میں طلب کر کے انہیں انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاںثاقب نثار نے یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی میرٹ سے ہٹ کر تعیناتیوں پر ازخود نوٹس لے لیا۔فاضل عدالت نے وائس چانسلرز کی تقرریوں کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم جاری کردیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میرٹ سے ہٹ کر تعیناتیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے لیے سرچ کمیٹیوں کا مکمل ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی جاری کردیا۔ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کا کہنا تھا میں آپ کو یہ بھی بتاتا ہوں آپ یو ایچ ایس میں کس کو وائس چانسلر تعینات کررہے ہیں. چیف جسٹس نے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کو کہا جائیں اپنے سیاسی آقاو¿ں کو بتادیں عوام کے لیے کچھ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا محکمہ صحت مکمل فلاپ ہو گیا ہے، اس کا تو ککھ بھی نہیں رہا، پنجاب کے ایک ہسپتال میں گائناکالوجسٹ کی جگہ آنکھوں کے ڈاکٹر کو لگا دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے قصور میں مدثر نامی نوجوان کومبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے ملزمان کی ضمانتوں کا فیصلہ تاخیر سے کرنے پر ایڈیسل سیشن جج سے متعلق رپورٹ طلب کر لی جبکہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی رہائش گاہ کے باہر پارک کی جگہ سڑک تعمیر کرنے پر لئے گئے از خود نوٹس کو نمٹا دیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے قصور میں مدثر نامی نوجوان کومبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی پولیس ابوبکر خدا بخش نے رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا پولیس انسپکٹر طارق بشیر چیمہ اور عارف کی ضمانت خارج ہو چکی ہے،تاہم ملزمان ضمانت خارج ہونے پر فرار ہوگئے۔ جس پرچیف جسٹس نے استفسار کیاکہ پولیس اہلکاروں کی باری آئی تو کیوں نہ پکڑے گئے۔ جس پر جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایاکہ ایڈیشنل سیشن جج نے تین گھنٹے بعد فیصلہ سنایا جسکے دو ران وہ بھاگ گئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے پتہ کرائیں وہ کون جج تھا جس نے تین گھنٹے کیس انتظار میں رکھا جس پر عدالت کو آگاہ کیا گیا ایڈیشنل سیشن جج رفاقت علی گوندل نے ضمانتوں پر سماعت کی تھی۔ جس پرچیف جسٹسں نے قصور جعلی پولیس مقابلے میں مدثر نامی نوجوان کی ہلاکت پرملزمان کی ضمانت پر فیصلہ دیر سے کرنے پر ایڈیشنل سیشن جج سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں ۔ سپریم کورٹ نے ایل ڈی اے حکام کی جانب سے اسحاق ڈار کی رہائش گاہ کے باہر پارک کی بحالی سے متعلق رپورٹ جمع کرانے پر سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی رہائش گاہ کے باہر پارک کی جگہ پر سڑک بنانے سے متعلق از خود نوٹس نمٹا دیا۔ ایل ڈی اے حکام نے پارک کی بحالی سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ جس میں بتایا گیا 4.9 ملین روپے پارک کی بحالی پر خرچ ہوئے ہیں۔ عدالت نے پی ایچ اے کو پارک اصلی حالت میں بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا بچے پارک میں اسی طرح کھیلیں جیسے پہلے کھیلتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا اسحاق دار نے اپنی درخواست میں پارک ختم کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ عدالت نے اسحاق ڈار کی جانب سے جمع کروایا گیا چیک ایل ڈی اے کے حوالے کرتے ہوئے از خود نوٹس کیس نمٹا دیا۔نیشن رپورٹ کے مطابق ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے پر سعد رفیق اور ریلوے حکام کو 12 اپریل کو سپریم کورٹ طلب کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس
لاہور (خصوصی رپورٹر) وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ریلوے کارکردگی کے بارے میں عدالتی ریمارکس سے دلی دکھ ہوا۔ معزز عدالت کو پانچ سالہ کارکردگی پر خود بریف کرنے کیلئے ہر وقت حاضر ہوں۔ ہم نے کبھی نہیں کہا ریلوے منافع میں ہے۔ پاک ریلویز کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ محض ایک آڈٹ رپورٹ نہیں ہوسکتی‘ دم توڑتی ریلوے کو دوبارہ قدموں پر لاکھڑا کیا۔ 18ارب روپے کمانے والا محکمہ 50ارب کمائی تک جاپہنچا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں خواجہ سعدرفیق نے کہا ہم جلسوں میں قوم کو سچ بتاتے ہیں۔ ریلوے سیکٹر میں جتنا کام ہمارے پانچ برس میں ہوا ماضی کی دہائیوں میں نہیں ہوا۔ کارکردگی رپورٹ سنی گئی تو انشاءاللہ عدالت سے شاباش لے کر آئیں گے۔ ٹرینوں کی پابندی وقت اور اندرونی حالت میں بہت بہتری آئی ہے۔ آڈٹ اعتراضات ہمیشہ سے ہر محکمے کے بارے میں ہوتے ہیں‘ اس کا مطلب کرپشن نہیں۔ سعد رفیق نے کہا پاکستان ریلوے کو اقرباءپروری اور کرپشن سے پاک کرنے کیلئے ہماری ٹیم نے دن رات کام کیا۔