• news
  • image

بجلی کی لوڈشیڈنگ میں ناقابل برداشت اضافہ

بجلی کا شارٹ فال 2800 میگاواٹ ہوگیا، جس کے بعد ملک بھر میں 8 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، وزارتِ بجلی و پانی کے مطابق جمعہ کو طلب 17 ہزار 800 میگاواٹ اور پیداوار 15 ہزار میگاواٹ تھی، بعض شہروں میں تو لوڈشیڈنگ کا یہ عالم ہے کہ بجلی ایک گھنٹہ آتی ہے دو گھنٹے چلی جاتی ہے۔ متاثرین پوچھتے ہیں کہ پچھلے پانچ سال سے لوڈشیڈنگ کے دعوے کرنے والے بتائیں، یہ کیا ہورہا ہے؟ بجلی چلی جاتی ہے، تو ٹیوب ویل بند ہونے سے لوگ پینے کے پانی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔
عوام کے احتجاج کو محض واویلا سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے، پوری معاشی و سماجی سرگرمیوں کا دارومدار بجلی پر ہے ،چنانچہ اس کی بندش کاروبار زندگی کوبری طرح متاثر کرتی ہے۔ حکومت کی یہ وضاحت اپنی جگہ کہ دونوں بڑے ڈیموں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے، جس کی بناء پر پن بجلی کی پیداوار بہت معمولی رہ گئی ہے، ساتھ ہی یقین دلایا ہے کہ اپریل کے وسط میں درجۂ حرارت بڑھنے اور برف پگھلنے کے باعث ڈیموں میں پانی کے سطح بہتر ہونے سے حالات معمول پر آجائیں گے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو لیکن لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے اعلان کرنے والوں کو بلند بانگ دعوے کرتے وقت زمینی حقائق کو پیش نظر رکھنا چاہئے تھا۔ اگر موسم خشک جارہا ہو، تو فروری کے آخر میں پنکھے چلنے سے بجلی کی کھپت میں اضافہ ہوجاتا ہے جیسا کہ اس سال موسم سرما گزرا ہے۔ سردی بھی کم پڑی اور بارشیں بھی کم ہوئی ہیں، چنانچہ موسم گرما جلد شروع ہوگیا۔ یہ ہیں وہ زمینی حقائق جن پر ارباب بست و کشاد کو نظر رکھنی چاہئے تھی۔ ڈیمز کے بھرنے تک متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے تھی، پن بجلی کا سارا دارومدار بارشوں اور برف کے پگھلنے پر ہے اور یہ قدرتی ذرائع انسانی بس سے باہر ہیں۔ حکومت اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرے۔ انتخابات سر پر آگئے ہیں ، مشاہدہ ہے کہ گرمی کے ستائے لوگ حکومت کو ووٹ نہیں دیتے، خواہ وہ فرشتوں کی ہو۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن